جج کے سامنے ہی چلتا رہا بولیوں کا دور

سہارا گروپ کی چیف سبرت رائے کی ضمانت کے وابستہ معاملے میں پیر کے روز سپریم کورٹ میں دلچسپ معاملہ سامنے آیا ہے۔اترپردیش کے گورکھپور میں سہارا کی 140 ایکڑ زمین کو بیچنے پر بحث ہورہی تھی۔ دراصل سہارا گروپ کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ سمردھی ڈیولپرس64 کروڑ روپے میں یہ پراپرٹی خریدنے کو تیارہے لیکن گورکھپور ریئل اسٹیٹ کمپنی نے اس کے خلاف عرضی لگادی اور پیر کو جب اس پر سماعت شروع ہوئی تو دونوں کمپنیوں کے وکیل بنچ کے سامنے پیش ہوئے اور زمین کی بولی لگانے لگا۔ بولی150 کروڑ تک پہنچ گئی۔ قابل ذکر ہے کہ سہارا نے 7 جولائی کو 140 ایکڑ زمین64 کروڑ روپے میں سمردھی ڈولپرس کو بیچے جانے کی اطلاع عدالت کو دی تھی لیکن گورکھپور ریئل اسٹیٹ ڈولپرس نے کہا کہ وہ اس زمین کے لئے 110 کروڑ روپے دینے کو تیار ہے۔ عدالت نے کہا وہ اس کا 10 فیصد (11 کروڑ روپے) بطور بیعانہ جمع کرائے پھر اس کی بات سنی جائے گی۔ پیر کو گورکھپور ڈولپرس 11 کروڑ روپے جمع کئے اور سماعت میں شامل ہوگئی۔ بحث شروع ہوئی تو سمردھی ڈولپرس نے کہا کہ وہ 110 کروڑ روپے بھی دینے کو تیار ہے لیکن گورکھپور ڈولپرس نے 115 کروڑ روپے کی بولی لگادی۔ یہ سب کچھ جج صاحبان کے سامنے ہوتا رہا۔ اس پر ججوں نے سمردھی ڈولپرس کے وکیلوں سے پوچھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟ سمردھی کے وکیل پارس کوہار کو کورٹ روم میں موجود کمپنی کے لوگوں نے اشارے سے بولی لگانے کو کہا۔ کوہار نے بولی بڑھا کر 125 کروڑ روپے کردی اتنا سنتے ہی گورکھپور ڈولپرس کے وکیلوں نے کہا ہم 140 کروڑ روپے بھی دینے کوتیار ہیں۔ اس پر سمردھی ڈولپرس نے 145 کروڑ کی بولی لگادی، اس پر پھر گورکھپور ڈولپرس نے کہا کہ ہم 150 کروڑ روپے دیں گے آخر میں سپریم کورٹ نے سماعت روک دی اور اگلی تاریخ 3 اگست طے کردی ساتھ ہی شرط رکھی دونوں فریق150 کروڑ روپے کی 25 فیصد رقم جولائی تک تین قسطوں میں جمع کریں ۔ جو فریق بیچ میں بھاگا یا باقی رقم جمع کرانے میں ناکام رہا تو اس کے 37.75 کروڑ روپے ضبط ہوجائیں گے۔ زمین سے ملی رقم سیبی۔ سہارا کھاتے میں جمع ہوگی۔ عدالت نے سبرت رائے کی ضمانت کیلئے اسی کھاتے میں پیسہ جمع کرانے کو کہا ہے۔ ضمانت کیلئے 5 ہزار کروڑروپے نقد اور اتنی ہی بینک گارنٹی جمع کرانی ہے۔ اس کے بعد18 مہینے میں 26 ہزار کروڑ روپے چکانے ہیں۔ رائے کے وکیل کپل سبل نے پچھلی سماعت میں کہا تھا دنیا کا کوئی بھی بزنس گروپ 18 ماہ میں 30 ہزار کروڑ روپے نہیں چکا سکتا۔ بنچ نے سیبی سے کہا کہ وہ سہارا گروپ کی سیبی سہارا کھاتے کی تفصیل مہیاکرائے اور یہ بھی بتائے کہ گروپ کے ذریعے سیبی ۔سہاراکھاتے میں جمع رقم کہاں کہاں سے سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟