مارکٹ میں بکتا چین کا سنتھیٹک چاول

راجدھانی میں پھل سبزیوں کو پکانے و تازہ رکھنے کے لئے کیمیکل کا استعمال ہونے کی بات کئی بار ہائی کورٹ میں اٹھ چکی ہے لیکن بدھوار کو دہلی ہائی کورٹ میں دائر ایک اپیل میں الزام لگایا گیا ہے کہ چین سے پلاسٹک سے بنے سنتھیٹک چاول درآمد کر بیوپاری اسے اصلی چاول میں ملا کر بیچ رہے ہیں۔ پہلے بھی دکشنی بھارت کے بازاروں میں پٹے پڑے چین سے لائے گئے سنتھیٹک چاول ملاوٹی نہیں پوری طرح نقلی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ چاول صحت کے لئے بیحد نقصاندہ ہیں۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جی روہنی و جسٹس جینت ناگ کی ڈویژن بنچ نے معاملے کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اپیل کو سنوائی کے لئے منظور کرلیا ہے۔ بتا دیں کہ بدھوار کو اپیل کنندہ کے وکیل سگریو دوبے کی پھل سبزیوں میں کیمیکل کا استعمال ہونے کے سلسلے میں اپیل کی سنوائی طے تھی اس دوران اپیل کنندہ نے نئی درخواست دے کر پیٹھ کے سامنے چین سے امپورٹ ہوئے سنتھیٹک چاولوں کی جانکاری دی۔ سگریو دوبے کے مطابق پچھلے کئی سالوں سے دیش میں چین سے اصلی چاول کی جگہ نقلی سنتھیٹک چاول کا امپورٹ ہورہا ہے۔اپیل میں بتایا گیا ہے کہ چاول معیار کی جانچ کے لئے کوئی انتظام نہیں کئے گئے ہیں۔ ان کے سیمپل بھی نہیں لئے جارہے۔ چاول کے علاوہ بازار میں ہینگ، دال اور آم میں کیمیکل کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اپیل میں عدالت سے گزارش کی گئی ہے کہ سرکار کو تھوک ویاپاریوں کے یہاں چھاپہ مارنے اور وہاں سے سیمپل لینے کی ہدایت دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے یہ دھندہ چل رہا ہے۔ عام لوگ پاسٹک والے چاول و اصلی چاول میں فرق کو پہنچان نہیں سکتے۔ یہ دیکھنے میں تو اصلی لگتا ہے مگر پچتا نہیں ہے اور اس سے گیس کا گمبھیر مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ ہینگ بھی نقلی بک رہی ہے اور ٹرک میں آم بھرنے کے دوران ہی اس میں کیلشیم کاربائیڈ رکھ دیا جاتا ہے۔ 50 گرام کاربائیڈ 100 کلو آم کے لئے کافی ہوتا ہے۔ بتا دیں کہ کیا ہے یہ سنتھیٹک چاول؟ سنتھیٹک چاول دھان کے کھیتوں میں نہ اگاکر چین کی فیکٹریوں میں تیار کئے جاتے ہیں۔ چین سے لائے گئے یہ نقلی چاول، آلو ، شقرقند اور پلاسٹک یا پولیمر کے اشتراک سے بنائے جاتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ عام چاول جیسے ہی دیکھتے ہیں لیکن پکانے پر ہی کڑے رہتے ہیں اور پانی سوکھنے کے ساتھ ہی چاول کی اوپری سطح پر ایک مہین پلاسٹک کی شفاف پرت نظر آتی ہے۔ پکاتے وقت اس میں سے پلاسٹک کی بو آتی ہے۔ تھوڑا زیادہ پکانے پر یہ جلنے لگتے ہیں۔مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو اس گمبھیر مسئلے پرفوری توجہ دینی ہوگی اور اسے روکنے کے لئے قدم اٹھانے ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟