داؤ پر رنجیت سنہا اور سی بی آئی کی ساکھ و غیر جانبداری!

ٹوجی اسپیکٹرم اور کوئلہ گھوٹالوں کی جانچ کررہی سی بی آئی کے ڈائریکٹر رنجیت سنہا پر لگے الزامات اور تنازعے سے کئی بڑے سوال کھڑے کردئے ہیں۔ سنہا کے معاملے پر سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن نے ایک عرضی دائر کرڈالی۔ ان کا دعوی ہے کہ رنجیت سنہا نے اپنے عہدے کا بیجا استعمال کیا ہے۔ وہ ٹو جی گھوٹالے کے ملزمان اور ملزم کمپنی کے حکام سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے سرکاری گھر میں انہوں نے تمام ملزمان سے درجنوں بار ملاقات کی۔ اس کے ریکارڈ ان کے گھر کی وزیٹر ڈائری میں بھی درج ہیں۔ ان ڈائریوں کے دستاویزعرضی گذار نے ہسپتال میں پیش کئے۔ اتنا ہی پرشانت بھوشن نے سی بی آئی ڈائریکٹر کی نجی ڈائریوں کی کاپیاں بھی پیش کی ہیں۔ وزیٹر ڈائریوں میں تمام ایسے انکشاف ہوئے ہیں جن کو لیکر سی بی آئی ڈائریکٹر کی نیت پر سنگین سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پیش ریکارڈ کے مطابق پچھلے 15 مہینوں کی میعاد میں سنہا نے اپنے گھر پر صنعت کار انل امبانی سے پانچ بار ملاقات کی جبکہ ان کی ایک کمپنی ٹوجی گھوٹالے میں ملزم ہے۔ اس کمپنی کے اعلی افسران جیل بھی جاچکے ہیں۔ اسی گھوٹالے کو لیکر اس میں سب سے سنسنی خیز جانکاری تو میٹ کے کاروباری معین قریشی کی ملاقاتوں کی ہے۔ 15 مہینے میں سنہا 90 بار ان سے ملاقات کرچکے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ جنوری مہینے میں قریشی کی کمپنیوں اور گھر پر انکم ٹیکس محکمے نے چھاپے ماری کی تھی۔ اس چھاپے ماری میں انکم ٹیکس محکمے کو کروڑوں روپے کے ناجائز لین دین کے ثبوت ملے تھے۔ پرشانت بھوشن نے تمام دستاویزوں کو سپریم کورٹ میں پیش کیا ہے۔اس معاملے میں جمعرات کو سماعت ہونی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اسے ٹال دیا۔ اب پیر کو اس پر سماعت ہوگی۔ جمعرات کو عرضی کی سماعت کے دوران رنجیت سنہا کو زبردست جھٹکا لگا۔ جب ان کی اس مانگ کو اس کیس کے بارے میں کچھ بھی اخبار وغیرہ کی میڈیا میں ٹیلی کاسٹ یا اشاعت روک لگانے کی اپیل کی تھی جس کو عدالت نے منظور نہیں کیا۔ جسٹس ایم ایل دتو کی سربراہی والی ڈویژن بنچ نے کہا کہ ڈائریکٹر کی رہائش گاہ پر آمد رجسٹر سے اٹھے سوال بہت حساس ہیں اور امید کی جاتی ہے کہ میڈیا ذمہ داری سے کام کرے گی۔ عدالت نے آمد رجسٹر کی فہرست کی تفصیل شائع کرنے سے میڈیا کو روکنے کی رنجیت سنہا کے وکیل کی درخواست کو مسترد کردیا۔ بیورو کے ڈائریکٹر کے وکیل کی دلیل تھی کہ اس میں ان کے ذاتی اختیارات اور ساکھ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس پر جج صاحبان نے کہا ہمارا اس پر (پریس) کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ پرشانت بھوشن نے مطالبہ کیا کہ ٹوجی گھوٹالے کی جانچ سے سنہا کو الگ کیا جائے۔ ان کے عہدے پر رہتے ہوئے غیرجانبداری کی امید نہیں کی جاسکتی جبکہ سنہا نے کہا کہ انہیں نہیں معلوم کے کارپوریٹ گھرانوں کی آپسی رسہ کشی میں انہیں نشانہ بنایا جارہا ہے یا کسی وجہ سے کچھ لوگ انہیں نشانہ بنا رہے ہیں۔ سنہا نے دعوی کیا کہ جو وزیٹر رجسٹر و ڈائری کی تفصیل شائع کی جارہی ہے وہ فرضی ہے۔ ان کی مبینہ ذاتی ڈائریاں بھی فرضی ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ ان کے گھر پر جو مہمان آتے ہیں ان کی رجسٹروں میں اینٹری نہیں ہوتی۔ انٹر کام کے ذریعے سکیورٹی گارڈ اطلاع دیتا ہے۔ حالانکہ انہوں نے تسلیم کیا کہ میں انل امبانی و قریشی سے ملا تھا لیکن اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ان کا بچاؤ نہیں کیا ۔ ایسے میں ان کی نیت پر سوال نہیں کھڑے کئے جانے چاہئیں۔ رنجیت سنہا کی میعاد آنے والی3 دسمبر کو ختم ہونی ہے۔ سنہا نے دو سال کے لئے 3 دسمبر 2012ء کو یہ عہدہ سنبھالا تھا۔ کیونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اس پر کسی بھی طرح کی رائے زنی کرنا ٹھیک نہیں ہوگا ۔ اب سپریم کورٹ میں پیر کو آگے کیا ہوتاہے بہت سی باتیں منحصر کرتی ہیں۔ پرشانت بھوشن کویہ ثابت کرنا ہوگا کہ رنجیت سنہا نے انل امبانی و معین قریشی کو چل رہی قانونی کارروائی میں بچانے کیلئے مقدمہ کمزور کیا ، تب تو الزامات میں دم نظر نہیں آئے گا لیکن کسی سے ملنا جرم نہیں ہے لیکن اگر اس ملاقات سے کسی میں کمزوری آئی تو معاملہ سنگین بن جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ گھوٹالے کی جانچ کررہے ڈی آئی جی سنتوش روہتگی کو ان حالات میں ہٹایا گیا تھا۔اب سنہا سے وابستہ یہ نیا معاملہ سامنے آیا ہے وہ بھی تب تک جبکہ اس معاملے میں اسے سنہا کو الگ رکھنے کی عرضی التوا میں ہے۔ معلوم ہوکہ روہتگی کو جانچ سے ہٹانے کے بعد سنہا پر معاملے میں کچھ بااثر ملزمان کو بچانے کے الزام لگے ہیں۔ بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر روہتگی کو جانچ ٹیم میں بنائے رکھا اب داؤ پر ہے رنجیت سنہا اور سی بی آئی کی ساکھ اور غیر جانبداری۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟