ہندی، ہندو، ہندوستان؟نجمہ اواچ

مرکزی اقلیت معاملوں کی وزیر نجمہ ہیبت اللہ نے اپنے ایک بیان سے بھلے ہی آر ایس ایس سر سنچالک موہن بھاگوت کو خوش کردیا ہو لیکن ان کے اس بیان پر سیاسی وبال ہونا فطری ہی تھا۔ نجمہ نے انگریزی کے ہندوستان ٹائمس کو دئے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ ہندوستان میں رہنے والے سبھی لوگوں کو اگر ہندو کہہ دیا تو اس میں غلط کیا ہے؟یعنی سبھی بھارتیہ ہندو ہیں۔ سبھی بھارتیوں کیلئے پہچان کی یکسانیت ہونے کی ضرورت کا اشارہ دیتے ہوئے نجمہ نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتی ہیں کوئی ایسادیش ہے جہاں تین مختلف زبانوں میں تین نام ہوں۔ انہوں نے کہا عربی میں بھارتیہ ہندی اور ہندوستانی کہے جاتے ہیں اور فارسی اور انگریزی میں انڈین کہے جاتے ہیں۔ نجمہ نے کہا ’’ہم ہندی ہیں ، قومیت کی پہچان کے طور پر ہم ہندوستانی ہیں۔جغرافیائی طور سے اور تاریخی طور سے سندھ کے اس پار رہنے والے لوگوں کو ہندو کہا جاتا تھا۔عرب دیشوں میں آج بھی عام طور پر بول چال میں ہندوستانیوں کو ہندو یا ہندی کہا جاتا ہے۔ اس انٹرویومیں نجمہ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح کچھ اسلامی کٹر پنتھی ملک کی ایکتا توڑنے پر اتارو ہیں۔انہوں نے سنگھ چیف موہن بھاگوت کے اس قابل ذکر بیان کا بچاؤ بھی کیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان میں رہنے والے ہر شخص کی پہچان ہندو ہی ہے اور بھارت ایک ہندو راشٹر ہے۔بعد میں ہنگامہ ہونے پر نجمہ اپنے بیان سے پلٹ گئیں۔ اپنے بیان پر صفائی دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سبھی بھارتیوں کوہندی کہاتھا جو بھارت میں رہنے والے لوگوں کیلئے استعمال کیا جانے والا لفظ ہے اور جو انہوں نے کہا تھا وہ مذہب کے سلسلے میں نہیں بلکہ قومیت کے طور سے ایک پہچان کے سلسلے میں کہا تھا۔
سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ سنگھ چیف موہن بھاگوت کے اس بیان کہ سبھی بھارتیوں کو ہندوکہا جانا چاہئے سے ان کی ہندو کی تشریح دھرم سے یا جغرافیائی نظریئے سے؟ کیونکہ اگر دھرم سے ہے تو یہ کسی کو منظور نہیں ہوگی۔ آئین میں صاف کہا گیا ہے کہ بھارت یعنی انڈیا۔ یہ نہیں کہا گیا بھارت یعنی ہندو۔ بھارت میں سبھی دھرموں کے لوگ رہتے ہیں اور سب بھارتیہ ہیں، ہندوستانی ہیں،سرسنگھ چالک موہن بھاگوت کے اس بیان سے ان کے ہندوتو کے اشارے ملتے ہیں۔ بیشک وہ شاید اس دیش کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی کی سرکار بننے کے بعد سے سنگھ، وشو ہندو پریشدوغیرہ خاموشی سے ہندوتو کا ایجنڈا بڑھا رہے ہیں۔ وہ یہ بھولتے ہیں کہ نریندر مودی کو جو لوک سبھا چناؤ میں شاندار کامیابی ملی وہ ان کے ہندوتو کے ایجنڈے پر نہیں ملی ۔ انہیں یہ مینڈیٹ دیش کے وکاس کیلئے ملا ہے۔ نوجوانوں کو بہتر مستقبل دینے کے لئے ملا ہے۔ اس طرح کے بیان الٹا مودی کی مصیبتیں ہی بڑھاتے ہیں۔ہمیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ دیش میں مہنگائی، بے روزگاری، مہلا تحفظ، بجلی پانی جیسے سینکڑوں مسائل منہ اٹھائے کھڑے ہیں تین مہینے میں مودی ان کا حل نہیں نکال پائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ تین مہینے وقت بہت کم ہوتا ہے پر سرکار کوئی بھی تو ٹھوس قدم نہیں اٹھا پائی ہے۔ ایسے میں یہ فالتو کے مدعے اٹھا کر سنگھ پرمکھ اور دیگر کیامودی کا بھلا کررہے ہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟