بھارت۔ جاپان کی دوستی کو نیا رنگ دے گا مودی کا دورہ!

وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی سرکار کے 100 دن پورے ہونے سے عین پہلے جاپانی وزیر اعظم شنجو آبے کے ساتھ مل کرباہمی رشتے کے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ یوں تو جاپان سے ہماری دوسری بہت پرانی ہے لیکن مودی نے تمام سفارتی اڑچنوں نے آگے بڑھ کر اس میں بھروسہ اور خیر سگالی کی گرمی کی آہٹ پیدا کی ہے۔ یہاں یہ بھی کہنا واجب ہوگا کہ ٹھیک ویسی ہی گرمجوشی جاپان کے وزیر اعظم شنجو آبے کی طرف سے دیکھنے کو ملی۔ بھارت۔ جاپان دوستی کا اثر نہ صرف ایشیا پر بلکہ دنیا کی سیاست پر بھی پڑنا طے ہے۔ گجرات کے وزیر اعلی رہتے ہوئے مودی نے جاپان کے دورہ کئے تھے اسی دوران دونوں لیڈروں کے بیچ بہتر تال میل بن گیا تھا جس کی حکمت عملی دونوں دیشوں کے بیچ ہوئے اہم معاہدوں کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جاپان کی کلچرل نگری کیوٹو کو کاشی سے جوڑ کر مودی نے دونوں ملکوں کے عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ ہمارے آپسی رشتے ڈپلومیٹک اور کاروباری سے زیادہ ایک مشترکہ کلچر کی بنیاد پر ٹکے ہیں۔ جاپان دورہ میں نریندر مودی پردھان منتری سے زیادہ ایسے ڈپلومیٹ کے رول میں نظر آئے جنہوں نے قدیم اور اثر دار ملکوں کو اپنے رشتوں کی گہرائی اور طاقت کا احساس کرایا۔ دنیا مان رہی ہے کہ 21 ویں صدی ایشیا کی ہوگی لیکن اس اعتراف میں چین کا بھی خوف پوشیدہ ہے جو طاقتور ہوتا جارہا چین جس طرح اپنے آس پڑوس کو ہی خطرناک نظروں سے گھورنے میں لگا ہوا ہے اس خوف کا پنپنا فطری ہے۔ وزیر اعظم مودی نے ٹوکیو میں جاپان کے ساتھ دوستی کی نئی بنیاد رکھتے ہوئے چین کو یہ پیغام دیا کہ وہ اپنی جارحیت والی پالیسی کو ترک کرے اور اس کی اہمیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ کچھ ہی دنوں میں چین کے صدر بھارت آنے والے ہیں۔ چین کو پیغام دے کرنریندر مودی نے صاف کردیا کہ اس کے مقابلے بھارت اور جاپان کے رشتے کہیں زیادہ مضبوط ہوئے ہیں۔ اس بنیاد کو طاقت فراہم کرنے کا کام کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے بیچ مختلف سمجھوتے ہوئے۔ جاپانی وزیر اعظم نے اگلے پانچ برسوں میں بھارت کو 2 لاکھ10 ہزار کروڑ روپے سرمایہ کاری کرنے کا نئی دہلی کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ دہلی کے ساتھ بدلتے رشتے کی اہمیت کی نشاندہی کی ہے اس کے تحت بنیادی ڈھانچے اور پروڈکشن ، اسمارٹ سٹی صاف ستھری توانائی اور گنگااور دیگرندیوں کی صفائی سے وابستہ اسکیموں میں سرمایہ کاری ہونا وزیر اعظم بننے کے بعد مودی اس اشو پر خاص طور سے زور دے رہے ہیں کیونکہ اس میں سرمایہ کاری کا مطلب نئے روز گار پیدا کرنا ہوگا۔حالانکہ دونوں ملکوں کے درمیان نیوکلیائی تعاون بڑھانے پر رضامندی ہوئی ہے لیکن امریکہ کی طرح سول سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔ ایٹمی تعاون پر بھلے ہی اس بار بات نہ بن پائی ہو لیکن جاپان نے اپنے انتہائی جدید سکیورٹی کے سازو سامان کیلئے اپنی جھولی کا منہ کھول دیا ہے ۔ اس کا فوری فائدہ ہمیں ہند ساگر اور خلیجی بنگال میں ملنا ہے۔ انڈومان نکوبار کا جزیرہ جس پر چین کی نظریں لگی ہیں، یہ ہماری تشویش کا سبب ہے۔ مودی اسی مہینے امریکہ کے صدر براک اوبامہ سے بھی ملنے والے ہیں۔ جاپان کے دورہ کے بعد اب بھارت۔ جاپان اور امریکہ کا طاقتور تکون بننے کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ مودی کا بلٹ ٹرین کا خواب اب جاپان سرکار پورا کرے گی جس میں وہ پیسے اور تکنیک کی بھر پور مدد دینے جارہا ہے۔ گنگا کی صفائی میں بھی جاپان شامل ہونا چاہتا ہے اسے مہم کی کامیابی کا ایک اچھا اشارہ مانا جاسکتا ہے۔ فلاحی اور ڈیفنس سیکٹر میں کام کررہی ہماری چھ کمپنیوں پر سے پابندی ہٹا کر جاپان نے ان کے جدید کرن کا راستہ صاف کردیا ہے۔ جاپان کے صنعتی سیکٹر کیلئے وزیر اعظم کے دفتر میں اسپیشل سیل بنانے کا اعلان کرکے نریندر مودی نے جتادیا ہے کہ وہ اس رشتے کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ چینی صدر کے ہندوستان آمد کے بعد مودی امریکہ کے دورہ پر روانہ ہوں گے اور اس دورہ سے دونوں ملکوں کو امیدیں ہیں اگرچہ وہ پوری ہوتی ہیں تو ستمبر خارجہ پالیسی کے مورچے پر ایک میل کے پتھر کی شکل میں جانا جاسکتا ہے۔ بھارت۔ جاپان کے رشتے دنیا کے طاقت کے توازن میں یقینی طور سے ایک نیا باب لکھنے میں کامیاب ہوں گے اس میں کوئی شبہ نہیں دکھائی دیتا۔
(انل نریند)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟