رقیب الحسن کے سنسنی خیز انکشافات مدد گار تھے دو درجن پولیس افسر وجج!

نیشنل نشانے باز تارہ شاہ دیو معاملے کے ملزم رنجیت سنگھ کوہلی عرف رقیب الحسن نے جارکھنڈ پولیس کے سامنے کئی بڑے انکشافات کئے ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق حسن نے بتایا کہ ان کے کئی دہلی کے جج صاحبان سے اچھے رشتے ہیں۔ وہ ان سے مل کر ضمانت دلانے کا دھندہ کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ کروڑوں روپے کماتا تھا۔ اس سلسلے میں کئی جج کے گھر پر اس کا آنا جانا تھا رقیبل نے دو درجن پولیس افسران کے نام بھی بتائے ہیں جو اس کی مدد کرتے رہے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہلی ہوائی اڈے کے پاس واقع مہیپال پور میں ایک ہوٹل میں اس کا کمرہ بک رہتا تھا۔ اگر اس کے کسی جاننے والے کو دہلی میں کوئی کام ہوتا تھا تو وہ اسی کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا۔ رقیب الحسن(رنجیت سنگھ) نے دو درجن پولیس حکام کے بارے میں یہ بھی انکشاف کیا کہ زیادہ تر ڈی ایس پی رینگ کے افسر ہیں۔ اس کے علاوہ چھ جج بھی اس سے ملے ہوئے تھے۔ ان میں ضلع جج اور چیف جسٹس سطح کے افسران بھی تھے۔ رقیبل نے بتایا کہ دہلی کے اشارے پر جھارکھنڈ کے کسی بھی ضلع کے کورٹ کے افسر اس کا کہا مانتے تھے اور اس کا پورا کام جھٹ پٹ کردیتے تھے اور وہ اس کام کے عوض سے ملی رقم کا 80 فیصدی ایک شخص مشتاق احمد لیتا تھا ۔ باقی پیسہ رقیب الحسن کو جاتا تھا۔ کسی ملزم کو ضمانت دلوانے کے عوض میں رقیبل 2 سے5 لاکھ روپے تک لیتا تھا۔ کورٹ کا کام رقیبل کے اپارٹمنٹ سے ہی نمٹایا جاتا تھا۔ مختلف ضلعوں کے عدلیہ حکام خود رقیبل کے فلیٹ پر آتے تھے۔ پولیس افسر بھی وہاں آیا جایا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو پیسے کے ساتھ لڑکی بھی سپلائی کی جاتی تھی۔ ڈی ایس پی کے لئے طے رقم کا آدھا حصہ رقیبل کو ملتا تھا۔ اس نے سیکس ریکٹ سے جڑے کئی پولیس افسروں اور ہائی پروفائل لوگوں کے نام بھی بتائے ہیں۔ تارا کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو بھی صحیح بتایا۔ جارکھنڈ کی تارا شاہ دیو اب پتی کی قید سے باہر ہے۔ اس کا پتی رنجیت سنگھ کوہلی عرف رقیبل پولیس کی گرفت میں ہے۔ ریاستی سرکار پورا معاملہ سی بی آئی کو سونپ چکی ہے، جانچ جاری ہے اور معاملے میں روز کچھ نہ کچھ نئی بات کھل رہی ہے۔ تارا شاہ دیو نے بتایا کہ شادی کے وقت مجھے وائرل تھا۔ شادی کے بعد جب سسرال پہنچی تو رنجیت نے کہا آج کی رات آرام کرلے دوسرے دن کہا جانتی ہے میرے پاپا نہیں ہیں۔ مشتاق احمد ہی گارجن ہے ان کی خواہش ہے کہ ہمارا نکاح بھی ہوجائے اس سے ہمارے رشتے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبول کرلیا جائے گا۔ سب لوگ ہماری نظر سے نہیں دیکھتے اس لئے اس بارے میں کسی کو بتانا نہیں۔ نکاح میں کچھ ہوتا بھی نہیں ہے صرف ’قبول ہے قبول ہے ‘بولنا پڑتا ہے۔ مجھے سوچنے کا موقعہ بھی نہیں ملا۔ میں نے اس کے مطابق تین بار ’قبول ہے قبول ہے‘ کہہ دیا اور پھر مجھے وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ نکاح ہوتے ہی رقیب نے کہا ڈھنگ سے رہنا ورنہ دہلی والی نربھیا جیسا حال کردوں گا۔ رقیبل نے جو سنسنی خیز انکشاف کئے ہیں ان کی رانچی پولیس جانچ کررہی ہے اور جلد رقیبل عرف کوہلی کے خلاف چارج شیٹ داخل کرے گی تبھی صحیح معنوں میں پتہ لگے گا کہ رقیبل کے ذریعے لگائے گئے الزامات اور سنسنی خیز انکشافات صحیح ہیں یا نہیں؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟