کیا مودی لہرخاتمے کا اشارہ ہیں ضمنی چناؤ کے نتائج؟

نریندر مودی لہر پر سوار ہوکر دہلی کی گدی پر پہنچی بھارتیہ جنتا پارٹی کو تازہ ضمنی چناؤ میں عوام نے ایک جھٹکے میں ہی آئینہ دکھا دیا ہے۔ ویسے ضمنی چناؤ کے نتیجے کبھی بھی مستقبل کی پوری تصویر کو پیش نہیں کرتے پھر بھی وہ ہار جیت والی سیاسی پارٹیوں کو کچھ نہ کچھ پیغام ضرور دے دیتے ہیں۔ 3 لوک سبھا 33 اسمبلی سیٹوں کے لئے ہوئے ضمنی چناؤ نتائج سے جس پارٹی کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے وہ ہے بھاجپا۔ بہت سے علاقوں میں جہاں پچھلے عام چناؤ میں بھاجپا کو زبردست کامیابی ملی تھی وہاں سے آج اسے ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص کر اترپردیش جس طرح سے اپنے ممبران کے ذریعے خالی کردہ زیادہ سیٹوں کو بچانے میں ناکام رہی پارٹی کو خاصی پریشانی کا سبب ہونا چاہئے۔نتیجے اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ پردیش کے لوک سبھا چناؤ کے نتیجے نریندر مودی کے حق میں زیادہ تھے پارٹی کے حق میں کم۔ راجستھان میں بھاجپا نے لوک سبھا چناؤ میں ساری 25سیٹوں پر کامیابی درج کی تھی اور اس سے پہلے اسمبلی چناؤ میں بھی کانگریس کا صفایا ہوگیا تھا مگر ان ضمنی چناؤ میں کانگریس نے راجستھان کی 4 میں سے3 سیٹیں جیت لی ہیں اور بھاجپا کے ہاتھ ایک ہی سیٹ لگی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حالیہ ضمنی چناؤ میں مودی سرکار کی پریکشا نہیں ہو رہی تھی لیکن یہ بھی توقع نہیں تھی کہ بھاجپا کے مقابلے ان کی حریف پارٹیاں بڑھت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ پہلے اتراکھنڈ اور اب بہار ،راجستھان کے ساتھ ساتھ ایک حد تک گجرات میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ ان سے ایک بات صاف ہوتی ہے کہ لوک سبھا چناؤ میں نریندر مودی کا وزیر اعظم کے عہدے کا دعویدار ہونا ایک بڑی وجہ تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے بھاجپا کو ووٹ دیا تھا اور کئی مقامی اشو اور تجزیئے بھلا دئے تھے۔ ان ضمنی چناؤ میں نریندر مودی کوئی اشو نہیں تھے۔ ان ضمنی چناؤ سے ان کے پی ایم بنے رہنے پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں ہے اس لئے ووٹروں نے دیگر وجوہات کو ترجیح دی ہے اور نتیجے بھاجپا کے خلاف گئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان ضمنی چناؤ میں مودی فیکٹر کافی اہم اشو تھا تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اگر لوک سبھا چناؤ میں مودی کی ساکھ نے جیت دلائی تو ان ضمنی چناؤ میں بھاجپا کی ہار بھی مودی کی گرتی ساکھ کے سبب ہوئی ہے۔ بھاجپا نیتاؤں کے غرور نے بھی پارٹی کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ آج ورکر مایوس ہے اور وہ گھر بیٹھ گئے ہیں۔ چناؤ نیتا کم ورکر زیادہ جتاتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد بھاجپا نیتا ساتویں آسمان پرجا بیٹھے ہوں وہاں ورکر نہیں پہنچ سکتا اس لئے ورکر نے بھی وہیں آپ کو سبق سکھایا ہے اور بھاجپا مخالف پارٹیاں ضمنی چناؤ کے نتیجوں کا جائزہ چاہے کیوں نہ کریں وہ اپنی جیت کے جوش میں یہ کہنے سے بچیں توبہتر ہوگا کہ ہمیں مودی سرکار کے تئیں عوام میں ان کا کریزختم ہونے کا فائدہ ملا ہے۔ بھاجپا کو بھی اس دلیل کی آڑ لینے سے بچنا ہوگا۔ یہ ضمنی چناؤ نتیجے تو ریاست میں حکمراں پارٹی کے حق میں ہی جاتے ہیں۔راجستھان اس دلیل کو پیش کررہا ہے۔ گجرات میں بھی ایسا ہی کچھ دکھائی دیا۔ اترپردیش کے حالات ایسے نہیں تھے کہ بھاجپا کی8 سیٹیں اس سماجوادی پارٹی کے کھاتے میں چلی جاتیں جس کے عہد میں تنقید ہورہی تھی مغربی بنگال سے البتہ بھاجپا کیلئے اچھی خبر آئی۔ دو اسمبلی سیٹوں میں سے ایک جیت کر پارٹی یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی کہ ممتا کے سامنے اب وہی اہم سیاسی طاقت ہے۔ غیر بھاجپا خیمے کی بات کریں تو یوپی میں سماجوادی پارٹی کی کارکردگی اس کے لئے فائدہ مند اور راحت محسوس کرنے والی رہی۔ سپا 11 میں سے8 اسمبلی سیٹیں تو جیتی ہے مین پوری پر اپنا قبضہ برقرار رکھا ہے۔ اس جیت سے یقیناًسپا کا لوک سبھا چناؤ میں کھویا ہوا رتبہ قائم ہوا ہے اور پارٹی بھاجپا پراپنا دباؤ بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ جہاں تک کانگریس کا سوال ہے راجستھان کے نتیجے اس کے لئے سنجیونی کا کام کریں گے۔ ساتھ ہی گجرات میں تین سیٹوں پر ملی جیت کو بھی پارٹی خاص مان رہی ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے بھاجپا نے یوپی میں ضمنی چناؤ جیتنے کیلئے جس حکمت عملی پر عمل کیا وہی اس کی ہار کا سبب بنی۔ پتہ نہیں اس کے لیڈر یہ کیسے بھول گئے لوک سبھا چناؤ میں اس کی شاندار جیت کی بنیاد ترقی پر زور دینا تھا نہ کہ ’لو جہاد‘ جیسے اشوز کو رفتار دینا۔ بہرحال ضمنی چناؤ کی خاصیت ہوتی ہے کہ ان میں جیتنے والا نتیجوں کو اپوزیشن کے خلاف مینڈیٹ بتاتا ہے لیکن ہارنے والا مقامی اسباب کو اس کا ذمہ دار مان کر نتیجوں کو اہمیت کا حامل ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ویسے اگلے ماہ جب مہاراشٹر اور ہریانہ کے نتیجے آئیں گے تب ٹھیک سے صاف ہوگا کہ سیاست کونسی کرونٹ لے رہی ہے۔ تب تک ضمنی چناؤ کے نتیجوں کا تجزیہ جاری رہے گا۔ اتنا طے ہے کہ نریندر مودی اور بھاجپا لیڈر شپ کو اپنا برتاؤ بدلنا ہوگا۔ اگر مستقبل میں چناؤ جیتنے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟