انٹر نیٹ اورموبائل نے نوجوانوں کو نقصان بھی پہنچایا ہے!

جدید ٹیلی کمیونی کیشن سیکٹر میں پچھلے کچھ برسوں سے تکنیک بدلنے سے جہاں بہت سے فائدے ہوئے ہیں وہیں انٹرنیٹ سے کچھ نقصان بھی ہو رہے ہیں۔میں خاص کر موبائل میں یہ اسمارٹ فون کی بات کررہا ہوں ان میں انٹر نیٹ کی سہولت نے بچوں پر تھوڑا مضر اثر ڈالا ہے۔ دیش کے پہلے انٹرنیٹ ڈی ایڈکشن کلینک میں 8 مہینوں کے دوران 33 مریض آچکے ہیں۔ ان میں 29 تو14 سے25 سال کے ہیں۔ حال ہی میں ٹاک ایڈیکٹر کہے جاتے رہے ان لوگوں اور کنبے والوں سے میڈیا نے جب بات کی توجو حقیقت سامنے آئی وہ ہے سوشل میڈیا کمپیوٹر گیمس کی لت کی دہلادینے والی کہانیاں۔ جبکہ ٹوئٹر کے فاؤنڈر جیگ ڈورس خود کہہ چکے ہیں کہ روز 15 سے20 منٹ سے زیادہ انٹرنیٹ پر وقت نہیں دینا چاہئے۔ بنگلوروسٹی کالج میں لیکچرر اجے شیٹی اور ان کے بیٹے روہن کا ساتھ ہی علاج چل رہا ہے۔ شوہر اور بیٹے کو انجلی ہی ڈی ایڈکشن سینٹر لیکر آئی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ پرابلم چار سال پہلے اس وقت شروع ہوئی جب میں نے ایک نوکری جوائن کی۔ شام کو دیر سے گھر لوٹتی، اجے دوپہر میں کالج سے آجاتے تھے۔ ٹی وی دیکھتے، بیٹے کے ساتھ کھیلتے اور دیر ہونے لگے تو فیس بک اور ٹوئٹر آن لائن کرلیتے۔ اس وقت بیٹا کچھ کہتا یا مانگتا تو وہ اسے موبائل یا لیپ ٹاپ گیمس کے لئے دے دیتے۔ آہستہ آہستہ ہوا یہ کہ جتنا وقت پتی اجے انٹرنیٹ پر بتاتااتنا ہی بیٹا روہن کمپیوٹر گیمس کھیلتا۔ پھر دیر رات تک دونوں لیپ ٹاپ یا موبائل میں مشغول رہتے۔ اس بات پر ہماری کئی بار بحث ہوئی، جھگڑا بھی ہوا۔ ایک بار تو لگا جیسے میں نے اپنا گھر ہی کھو دیا ہے۔ تب میرے ایک ساتھی نے انٹرنیٹ ڈی ایڈکشن کلینک کے بارے میں بتایا کہ وہاں کے ایکسپرٹ نے اجے کو کچھ دوائیں اور انٹرنیٹ کم یوز کرنے کے لئے ٹائم ٹیبل دیا ہے۔ اجے نے گھر کو وقت دینا شروع کیا ہے۔ اس سے روہن بھی ٹھیک ہوگیا ہے۔ اسی کلینک میں علاج چل رہا ہے۔ایک ایسا ہی واقعہ سمپورنا یارڈ فورڈ کالج میں 12 ویں کلاس کے طالبعلم راجیش کٹیار کا ہے۔ وہ کلاس میں ہمیشہ اول آتا تھا۔ اس نے دو سال پہلے موبائل پر گیم کھیلنا شروع کیا۔ باسکٹ بال کھیلنے کا شوقین راجیش فرصت میں سائبر کیفے جانے لگا۔ وہ گھر میں کم باہر زیادہ وقت بتاتا تھا۔ جیولری کے کاروباری والد ودیا پتی کٹیار راجیش کی بات کرتے تو پریشان ہوجاتے۔ کہتے ہیں پتہ نہیں چلا کہ اسے اسمارٹ فون دلانا اتنا خطرناک ہوجائے گا۔ 8 مہینے بعد ہمیں شبہ ہوا جب راجیش نے پاکٹ منی مانگنا بند کردی۔ مجھ سے رہا نہیں گیا ۔ ایک دن میں نے اس کا پیچھا کیا تب پتہ چلا کہ اسے کمپیوٹر گیمس کا شوق ہے۔ سائبر کیفے والوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا ویڈیو گیمس میں اتنا ماہر ہوگیا ہے کہ وہ کیفے کی طرف سے سٹے بازی کرتا ہے اور اس سے اپنا خرچ ہی نہیں نکالتا بلکہ کیفے والوں کو بھی ان کا حصہ دیتا ہے۔ ایک مہینے پہلے ہی راجیش کا علاج شروع ہوا ہے۔ اس نے اب سائبر کیفے جانا چھوڑ دیا ہے لیکن موقعہ ملتے ہی موبائل گیم کھیلنا شروع کردیتا ہے۔ یہ بیماری بہت سے نوجوانوں میں پھیل گئی ہے۔ اب کتاب کی جگہ کمپیوٹر گیمس اور واٹس اپ نے لے لی ہے جو نوجوانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔جدید تکنیک سے جہاں فائدے بھی ہیں وہیں بری عادتیں بھی بڑھی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟