آئی ایس کی بڑھتی بربریت اور طاقت سے کیسے نمٹیں!

امریکی صحافیوں کے بعد اب اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس )نے تیسرے یر غمال برٹش شہری اور سماجی کارکن ڈیوڈ ہینس کو مارکر بین الاقوامی برادری پر دباؤ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ خبر صحیح ہے کہ اس کے قبضے میں اب بھی 24 سے زیادہ صحافی اور سماجی رضاکار اور دیگر لوگ ہیں تو یہ واقعی سبھی کیلئے تشویش کی بات ہے۔ یہ الگ بحث کا موضوع ہوسکتا ہے کہ عراق اور شام کوحالیہ پس منظر میں امریکہ اور اس کے اتحادی ساتھیوں کا کتنا رول ہے لیکن اسلامک اسٹیٹ کے ذریعے خلافت یعنی اسلامی حکومت قائم کرنا اور جس بربریت کا وہ مظاہرہ کررہے ہیں اسے روکنا اور اس کے خلاف فوجی کارروائی ضروری ہوگئی ہے۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے برطانیہ کو انسانی حقوق رضاکار ڈیوڈ ہینس کے قتل کو گھناؤنی اور بزدلانہ حرکت قراردیتے ہوئے اس دہشت گرد گروپ آئی ایس کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس تنظیم کو ہرایا جانا چاہئے اور اس کے ذریعے اپنائے گئے تشدد کی حرکتوں کو روکنا چاہئے۔15 نفری کونسل نے ایک بیان میں کہا یہ جرم یاد دلاتا ہے کہ شام میں سماجی رضاکاروں کیلئے ہرروز خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک بار پھر آئی ایس کی بربریت کو ظاہر کرتا ہے جو ہزاروں شامی اور عراقی لوگوں کے خلاف مجرمانہ حرکتوں کے لئے ذمہ دار ہے۔ آئی ایس مسلسل امریکہ سمیت تمام دیشوں کو جس طرح چنوتی دے رہا ہے اس سے بین الاقوامی برادری اس کے خلاف کرروائی کرنے کے لئے مجبور ہے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے 9/11 کی برسی پر کہا کہ امریکہ آئی ایس کو پوری طرح سے مٹا کر ہی دم لے گا۔ امریکہ کے لئے وہ خطرہ بنا ہوا ہے اس کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے عراق اور شام میں آئی ایس کے خلاف بڑی فوجی کارروائی چھیڑنے کا بھی اعلان کیا جس میں شام میں امریکی ہوائی حملے اور عراق میں 475 سے زیادہ فوجی مشیروں کی تقرری شامل ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ امریکہ میں براک اوبامہ کی سیاسی حیثیت سابق صدر جارج بش جونیئر کے ذریعے افغانستان اور عراق میں چھیڑی گئی جنگوں کی مخالفت کرتے ہوئے بنی تھی۔ عراق سے امریکی فوجوں کی واپسی کو انہوں نے بڑا کارنامہ بتایا تھا۔ افغانستان سے اس برس کے آخر تک ان کے دیش کے فوجی لوٹنے والے ہیں۔ اس درمیان خلافت کاخطرہ بنا ہوا ہے ۔دو امریکی صحافیوں کی بربریت موت کے بعد ان کے ملک میں ایک بار پھر ناراضگی کا ماحول بنا ہے اور اسلامی کٹر پسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ تیز ہوگیا ہے۔ نتیجتاً اوبامہ کو یہ فیصلہ لینا پڑا حالانکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس درمیان آئی ایس کے خلاف آگے کی حکمت عملی طے کرنے کے لئے پیرس میں ایک اہم میٹنگ ہوئی جس میں 10 ارب سنی ملکوں سمیت 30 سے زیادہ ملک شامل ہوئے۔یہ بھی بدقسمتی ہے کہ پچھلے تین برسوں سے امریکہ شام کے صدر بشرالاسد کو ہٹانے کی مہم میں لڑاکو ں کی مدد کرتا رہا ہے جبکہ آئی ایس پر کارروائی کا فائدہ القاعدہ کو ملے گا۔ امریکہ کے لئے ادھر کنواں ہے تو ادھر کھائی۔ دیکھیں آگے کیا پوزیشن بنتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟