پہلے لوک سبھا اب ڈوسو چناؤ میں مودی کوملا مینڈیٹ!

دہلی یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین کے چناؤ میں بھاجپا حمایتیاسٹوڈینٹ ونگ اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد (اے بی وی پی) 17 سال بعد سبھی چاروں سیٹوں پر اپنا قبضہ جماتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس سے پہلے اس تنظیم نے 1997-98 ء میں چاروں سیٹیں جیتی تھیں۔ کانگریس حمایتی این ایس یو آئی، دوسرے آئیسا تیسرے مقام پر رہی۔ سوائے ڈوسو صدر کے عہدے پرمقابلہ کانٹے کا رہا۔ باقی تین پر اے بی وی پی نے ایک طرفہ کامیابی حاصل کرتے ہوئے این ایس یو آئی کا صفایا کردیا۔ آئیسا کو بھی بھاری جھٹکا لگا ہے۔ اس جیت کی ایک بڑی وجہ نریندر مودی فیکٹر بھی مانا جارہا ہے۔ ڈوسو چناؤ میں پہلی بار بی جے پی کے ایم ایل اے اور پریشد بھی سرگرم رہی۔ مودی لہر پر ووٹ مانگے گئے تھے اس بھاری کامیابی نے دہلی بھاجپا کی بانچھیں کھلا دی ہیں اور پچھلے تین دنوں سے کچھ دفاعی انداز میں آئے بھاجپا کے نیتا پھر جارحانہ انداز میں دکھائی دے رہے ہیں اور اس کامیابی کو بھی وہ وزیر اعظم نریندر مودی سے جوڑتے ہوئے دہلی کی عوام کا کانگریس سے ہر سطح پر کریز ختم ہونے کی بات کررہے ہیں۔ وہیں کانگریس کی اسٹوڈینٹ ونگ این ایس یو آئی کی ہار سے ان کے لیڈرضرور سکتے میں ہیں کیونکہ انہیں لگرہا تھا کہ اگر اسٹوڈینٹ یونین چناؤ میں دو سیٹوں پر بھی ان کو جیت مل جاتی تو وہ دباؤ بنانے کی پوزیشن میں آجائیں گے جس میں کہیں گے کے نوجوانوں کامودی اور بھاجپا سے کریز ختم ہوناشروع ہوگیا ہے ۔ دہلی میں سرکار کی تشکیل پر غیر یقینی صورتحال کے درمیان اسمبلی انتخابات سے کترا رہی بھارتیہ جنتا پارٹی کیلئے یہ کامیابی اہم ہے۔اس سے پارٹی میں نیاجوش اور اعتماد پیدا ہوا ہے۔ دہلی بی جے پی کے چیف ستیش اپادھیائے کہتے ہیں کہ اس جیت پر مودی کا اثر صاف دکھائی پڑ رہا ہے۔ اگر چناؤ ہوتے ہیں تو بھاجپا کو دہلی میں مکمل اکثریت ملے گی۔ دوسری طرف کانگریس کیلئے یہ چناؤ ایک اور زبردست شکست ہے۔ دہلی میں پھرسے اپنی زمین بحال کرنے کا خواب لے رہی کانگریس کیلئے ایک اور جھٹکا ہے۔ پچھلے 17 سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا ہے جب اس کی اسٹوڈینٹ ونگ کے سبھی چاروں عہدیداروں کو بری ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ کانگریس کے دہلی پردھان اروندر سنگھ لولی کے لئے بھی نتیجے مایوس کن رہے کیونکہ لوک سبھا چناؤ میں ساتوں سیٹوں پر کانگریس کے تیسرے نمبر پر رہنے کے بعد اس چناؤ میں امیدتھی لیکن ان کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔ دیش میں لوک سبھا یا اسمبلی چناؤ سے پہلے ڈوسو چناؤ ایگزٹ پول مانتے جاتے ہیں۔ اے بی وی پی کی زبردست کامیابی سے جہاں ایک طرف دہلی بھاجپا یونٹ کو دہلی میں سرکار بنانے کیلئے حوصلہ ملے گا وہیں ہریانہ میں 15 اکتوبر کے چناؤ میں بھی ان نتیجوں کا اثر پڑے گا۔ ایسے میں مودی لہر ابھی قائم رہنے کاٹیلر دیکھنے کے بعد دونوں ریاستوں کی یونٹیں پوری فلم دیکھنے کیلئے کافی امید لگائے ہوئے ہوں گی۔ ڈوسو میں تواے بی وی پی نے سنیچروار کو کامیابی درج کرائی لیکن جی این یو اسٹوڈینٹ فیڈریشن کے چناؤ میں بھی سال 2000 کے بعد اس سال لال جھنڈہ سیند لگانے میں کامیاب رہا۔ کل ملاکر یہ جیت بھاجپا کے لئے اہم اشارہ ہے۔ دہلی کی عوام نے پہلے لوک سبھا چناؤ میں اور پھر اب ڈوسو چناؤ میں مودی پر پورا بھروسہ جتایا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟