مودی ۔ ملائم کے آنے سے دلچسپ ہوگئی ہے پوروانچل کی سیاسی جنگ!

بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریندر مودی کو وارانسی پارلیمانی سیٹ سے امیدوار بنا کر پوروانچل کی مٹی میں گرمی پیدا کردی ہے اور رہی سہی کثر سماجوادی پارٹی کے مکھیہ ملائم سنگھ یادو نے بنارس سے ہی سٹی اعظم گڑھ سیٹ پر امیدوار بن کر پوری کردی ہے۔ سیاست کے دھرندر مانے جانے والے ان دونوں کھلاڑیوں کے رن کوشل کی پرکھ اس بار پوروانچل کی زمین پر ہو جائے گی۔ بھاجپا کے اعلی لیڈر رہے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی گذشتہ چناؤ میں بنارس سے لگ بھگ 17 ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے تھے اور انہوں نے پوروانچل کے باہوبلی ودھایک مختار انصاری کو ہرایا تھا۔ مودی کا بنارس سے لڑنے کا اثر پوروانچل کی تقریباً آدھا درجن سیٹوں بمولی، غازی پور، بلیا، اعظم گڑھ، جونپور، مرزا پور، بھدوئی سمیت آدھا درجن سے زیادہ سیٹوں پر اس کا اثر پڑے گا اور کبھی بھاجپا کو سب سے زیادہ سیٹیں دینے والا پوروانچل ایک بار پھر مودی کے لئے فائدے مند ثابت ہوسکتا ہے۔ مودی اور بھاجپا کی اس راج نیتی کو دیکھتے ہوئے ہی سماجوادی پارٹی نے بھی ملائم سنگھ کو بنارس کے بجائے اعظم گڑھ لوک سبھا سیٹ سے چناؤ میدان میں اتارا ہے۔ آخر اعظم گڑھ سے ہی کیوں لڑنا چاہتے ہیں چناؤ ملائم سنگھ یادو؟ نریندر مودی کے اثر کو کم کرنے کے لئے وہ میدان میں اتر رہے ہیں یا اس کے ساتھ ساتھ پریوارک وجوہات ہیں جو انہیں پوروانچل جانے کے لئے پریریت کیا ہے۔ کیا بسپا مکھیا اپنے چھوٹے بیٹے پرتیک یادو کے لئے سیاسی زمین تیار کررہے ہیں؟ پوروانچل اگر سیاست کی زر خیز زمین ہے تو ملائم سنگھ کے اعظم گڑھ سے لڑنے کے فیصلے نے یہاں اس کی فصل لہلہا دی ہے۔ کئی دنوں سے چرچا کا جو بازار گرم تھا منگلوار کو اس اعلان نے اس پر مہر لگادی۔ الہ آباد سے پوروانچل کی طرف جانے پر بنارس کے بعد اعظم گڑھ صدر وہ اکیلی سیٹ ہے جو بھاجپا کے قبضے میں ہے۔ وہاں سے سانسد رماکانت یادو کا اپنا الگ انداز ہے لیکن کبھی وہ ملائم کے شاگرد رہ چکے ہیں اور گورو کے سامنے انہیں پریشانی تو ہونی ہی ہے۔ یادو۔ مسلم اکثریت والے اعظم گڑھ کے چناؤ کے پیچھے وہاں کے ذاتی مذہبی و سبھی طرح کی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن پارٹی ذرائع کے مطابق پریوارک اختلافات کو کم کرنا بھی ایک وجہ ہے۔ مسلم سماج حالانکہ سپا سے ناراض ہے لیکن شخصی طور پر ملائم کی چھوی مسلمانوں کے درمیان اچھی ہے اور اسی کے فائدے کی امیدسے وہ یہاں چناوی دنگل میں کودے ہیں۔ ملائم کے اعظم گڑھ آنے سے سارے سمی کرن بدل گئے ہیں۔ ادھر ہر ہرمہادیو کے نعروں کے ساتھ ہی کاشی میں ہر ہرمودی ۔ گھر گھر مودی کا نعرہ جاری ہے۔ گجرات کے سومناتھ سے بابا وشوناتھ تک کے پرتیکوں سے بھاجپا کے پی ایم امیدوار نریندر مودی نے اپنی ہندوتو کی پہچان کو بڑھایا ہے۔ہندو سنسکرتی کے ادگم کیندر کہے جانے والے بنارس سے تال ٹھونک کر سنگھ کے پوسٹر بوائے سے بنارس کا مسلم طبقہ مشوش یا خوفزدہ ہواس کا بھی انتظام مودی کرر ہے ہیں۔ بڑی تعداد میں یہاں موجود مسلمانوں کے درمیان مودی کو لیکر پھیلی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے گجرات کے عام و خاص مسلمان بنارس میں آنے لگے ہیں۔ وہ بنارس کے مسلم طبقے کو گجرات کے مسلمانوں کی اچھی مالی حالت اور سماجی تحفظ کے قصے سنائیں گے۔ گنگا کے ٹٹ پر بسی دیش کی ثقافتی راجدھانی ہے۔ بھاجپا کے پردھان منتری کے امیدوار نریندر مودی کو لڑانے کا فیصلہ بیحد سوچ سمجھ کر سیاست کے تحت ہی لیا گیا۔سنگھ اعلی کمان کا بھی ماننا ہے کہ وارانسی سے نمو کو اتارنے سے صرف پوروانچل یا اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورے دیش میں بھاجپا اپنی وچار دھارا کے لوگوں کو سندیش دینے میں کامیاب رہے گی۔اب مودی انڈیا فرسٹ اور سبھی طبقے کے وکاس کے نعروں کے ساتھ ساتھ سیدھے مسلم طبقے کو بھی سمبودھت کریں گے ۔ گجرات کے مسلمانوں کی حالت باقی دیش کے مقابلے میں زیادہ اچھی بتانے اور ان کے آنکڑے پیش کرنے کا کام مودی اور بھاجپا کررہی ہے۔ بھاجپا ادھیکش راجناتھ سنگھ نے مسلموں کے درمیان جاکر مودی کے تئیں تشویش کو دور کرنے کیلئے کوششیں بھی کی ہیں خاص طور سے وارانسی میں مودی کی چھوی کو نکھارنے کے لئے گجراتی مسلمانوں کی فوج کاشی پہنچنا شروع ہوگئی ہے۔ مودی کے دور اقتدار میں گجرات میں مسلمانوں کی ترقی کی تصویر اور گزشتہ 12 سالوں میں کوئی فرقہ وارانہ دنگا نہ ہونے جیسا اور بنارس کے مسلمانوں کو بتائے جائیں گے۔ کل ملا کر نریندر مودی اور ملائم سنگھ یادو کے اس علاقے سے چناؤلڑنے سے پوروانچل کی سیاسی جنگ کافی دلچسپ ہوگئی ہے۔ اس کے نتیجے دیش کی آئندہ سیاست پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟