سری پرکاش جیسوال اور ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی میں ٹکراؤ!

اترپردیش کا سب سے بڑا شہر کانپور ہے اس شہر میں اس بار وارانسی ، اعظم گڑھ کے بعد اس سب سے اہم سیاسی لڑائی کا چناوی حلقہ بن گیا ہے۔ وارانسی سے بھاجپا کے سرکردہ لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی کے وارانسی سے مودی کے لئے سیٹ خالی کرنے پر مجبور ہونے کے بعد کانپور سے وہ چناؤلڑ رہے ہیں۔ سیاست میں کانپور کا اپنا ہی مزاج ہے۔ کانپور کے مزاج میں ممبران پارلیمنٹ کی ہیٹ ٹرک بنانا اور اب تک تین ممبران نے بنائی ہے۔ چار بار آزاد ایم پی چننے والا کانپور شاید پورے دیش میں اکیلا شہر ہوگا۔ اترپردیش کے سب سے بڑے شہر کی تکلیفیں بھی بڑی ہیں۔ گندگی، خستہ حال سڑکیں، صنعت، ٹریفک جام،کم ہوتے روزگارکے مواقع اور بجلی کا بحران وغیرہ وغیرہ شامل ہیں لیکن ان سے لڑتے ہوئے بھی شہر بار بار اپنے نیتاؤں کا موقعہ دیتا رہا ہے۔ تین بار سے کانپور کانگریس کے سری پرکاش جیسوال کو چنتا آرہا ہے۔ اس مرتبہ بی جے پی کے ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی کے میدان میں اترنے سے مقابلہ دلچسپ ہوگیا ہے۔ 1857ء کی آزادی کی پہلی لڑائی کے میدان جنگ کی رانی جھانسی ، تاتیاٹوپے وغیرہ کا یہ شہر آزادی کی لڑائی کے لئے مشہور ہے۔ چندر شیکھر آزاد، بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں نے کانپور کے ڈی اے وی ہاسٹل میں پڑھ کر اپنی انقلابی سرگرمیاں چلائی تھیں۔ گنیش شنکر ودیارتھی اور حسرت موہانی اس شہر کے اہم پہچان رہے ہیں۔ کبھی ایشیا کے مانچسٹر کہے جانے والے اس شہر کی صنعتوں کی قابل رحم حالت بن گئی ہے۔ 2009 کا لوک سبھا چناؤ سری پرکاش جیسوال نے 214988 (41.92) فیصد ووٹ ملے اور بھاجپا کے ستیش بڑہانا کو 196082 (38.23) فیصد ووٹ مل پائے۔ اس طرح کل18,906 ووٹوں سے ہی جیسوال جیت پائے تھے۔ جیسوال مقامی آدمی ہیں ان کی پیدائش 25 ستمبر 1944ء کو کانپور میں ہیں ہوئی تھی۔ 2011ء میں مرکزی حکومت میں وزیر کوئلہ بننے کے بعد وہ کول بلاک الاٹمنٹ معاملے میں مسلسل تنازعوں میں رہے ہیں۔اس مرتبہ امیدوار بننے کے بعد پہلی بار شہر آئے ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی نے اپنی پہلی ریلی میں سری پرکاش جیسوال پر تلخ تیور اپنائے اور کہا کہ پی اے سی کا چیئرمین رہتے گھوٹالے کی جانچ کی تھی اور یہ سوچا نہ تھا کہ انہیں اسی کے خلاف چناؤ لڑنا پڑے گا۔ ڈاکٹر جوشی کا گنگا پل پر ورکروں نے زور دار خیر مقدم کیا اور مقامی سرکردہ لوگوں اور بھاجپا نیتاؤں سے اپنے دوستانہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ سینکڑوں مرتبہ اس شہر میں آئے اور انہی لوگوں کے گھر میں ٹھہرا کرتے تھے۔ بسپا اور سپا امیدواروں کے اترنے سے چناؤ زبردست بن گیا ہے لیکن اہم مقابلہ ڈاکٹر صاحب اور جیسوال کے درمیان ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی شخصیت اور مودی لہر پر سوار ہیں۔ دوسری طرف سری پرکاش جیسوال کو ایک طرح کوئلہ گھوٹالے اور کانگریس مخالف لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے دیکھتے ہیں کہ اونٹ اس کرونٹ بیٹھتا ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟