ہریش راوت بنام ستپال مہاراج: داؤ پر اتراکھنڈ حکومت!

پوڑی گڑھوال سے ایم پی ستپال مہاراج کا کانگریس چھوڑنا اور بھاجپا میں شامل ہونا اتراکھنڈ کی سیاست میں خاصی اہمیت رکھتا ہے ستپال مہاراج کے بھاجپا میں شامل ہونے سے اتراکھنڈ میں سیاسی تجزیئے بدل گئے ہیں۔ ہریش راوت کی کانگریس سرکار کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ ستپال مہاراج کے کئی آدمی کانگریس کے ایم ایل اے ہیں اور وقت آنے پر وہ بھی پالہ بدل سکتے ہیں۔ حالانکہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی ہریش راوت نے کہا کہ کانگریس پارٹی متحد ہے اور نہ تو ان کی سرکار کوکوئی خطرہ ہے اور نہ ہی پارٹی میں اتحاد کو۔ آنے والے چناؤ میں بھاجپا کو پوری طاقت سے ہرادینے کو پارٹی تیار ہے۔ پارٹی کے کچھ بڑے نیتاؤں کا خیال ہے کہ مہاراج کے کانگریس چھوڑ جانے سے پارٹی میں طویل عرصے سے چلی آرہی رسہ کشی پر لگام لگ جائے گی اور گروپ بندی بھی رکے گی۔ جب ہریش راوت سے اس بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہاکہ ہمیں اب یہ دیکھنا ہوگاکہ چناؤ میں بھاجپا کو کس طرح ہرایا جائے۔ مہاراج کے جانے کے بعد پوری پارٹی کے نیتاؤں اور ورکروں نے اتحاد کا ثبوت دیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک ایک دوسرے کے سیاسی دشمن نظر آرہے اتراکھنڈ کے دو سب سے بڑے حریف ہریش راوت اور سابق وزیر اعلی وجے بہوگنا ستپال مہاراج کے پارٹی چھوڑ جانے کے بعد اب متحد دکھائی دے رہے ہیں۔ لنچ ڈپلومیسی کے تحت بازی پور گیسٹ ہاؤس میں رکے ہریش راوت کے قریب رہنے والے اپنے پڑوسی بہوگنا کے گھر گئے جہاں ان کے درمیان سیاسی حالات پر لمبی بات چیت ہوئی ۔اس لنچمیں تقریباً 13 کانگریسی بھی شامل ہوئے جن میں زیادہ تر بہوگنا کے حمایتی ایم ایل اے تھے۔کانگریس پردیش پردھان یشپال آریہ بھی اس لنچ میں شامل ہوئے ۔ اس کے بعد راوت کافی خوش دکھائی دئے اور بولے کہ ہم متحد ہیں اورآگے بھی رہیں گے۔ دوسری طرف مہاراج کی بیوی اور ریاست کی وزیر سیاحت امرتا راوت نے بھی ایک اچھا بیان دے کر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ کانگریس چھوڑ کر نہیں جارہی ہیں۔ پارٹی کے ذرائع کے مطابق امرتا کا یہ بیان بہت ہی مثبت ہے اور اس سے یہ پیغام بھی گیا ہے کہ پارٹی کے اندر رسہ کشی کا دور رک جائے گا۔ مہاراج کے پارٹی چھوڑنے کی خاص وجہ ہریش راوت اور ان کے درمیان برسوں سے جاری رقابت مانی جارہی ہے۔ 2002ء میں راوت کے پردیش کے وزیر اعلی نہ بن پانے کی اہم وجہ ستپال مہاراج ہی تھے۔ مہاراج کی مخالفت کی وجہ سے وزیر اعلی کی کرسی راوت کے ہاتھ سے پھسل کر نارائن دت تیواری کے پاس چلی گئی تھی۔ راوت کو دوسرا جھٹکا 2012ء میں لگا جب ایک بار پھر ان کے ہاتھ سے کرسی چھن کر وجے بہوگنا کے پاس چلی گئی۔ راوت نے کہا ہم نے جو کھونا تھا وہ کھودیا ہے لیکن ہم اب اپنی پوری توجہ پردیش کی ترقی اور آنے والے چناؤ میں پانچوں سیٹوں پر جینے پر لگائیں گے۔ دوسری طرف ستپال مہاراج کے بھاجپا میں آنے سے پارٹی میں نئی جان آگئی ہے۔ اب ان کا نشانہ پانچ لوک سبھا سیٹوں پر ہے۔ ساتھ ساتھ اتراکھنڈ اپنی سرکار بنانے کی پوری امید بھی جاگی ہے۔ آنے والے دن دونوں فریقین کے لئے اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟