چوتھی مرتبہ تیسرا مورچہ، مقصداقتدار میں آنا اور مودی کو روکنا!

غیر کانگریس ،غیر بھاجپا پارٹیوں نے ایک مرتبہ پھر ایک مشترکہ محاذ بنانے کی کوششیں تیز کردی ہیں یا یوں کہیں ایک مرتبہ پھر تیسرا مورچہ وجود میں آنے لگا ہے اور اس میں شروعاتی طور پر 11 پارٹیوں نے پارلیمنٹ میں مشترکہ حکمت عملی سے چلنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں چاروں لیفٹ پارٹیوں کے علاوہ سماجوادی پارٹی، جنتا دل (یو)، جنتا دل (ایس)، انا ڈی ایم کے ، بیجو جنتادل ،آسام گن پریشد، جھارکھنڈ وکاس مورچہ وغیرہ شامل ہیں۔ جلد بازی میں درجنوں بل پاس کروانے کی سرکار کی منشا کو بھی یہ پارٹیاں ناکام کرنے کی پوری کوشش کریں گی۔ حال تک بھاجپا لیڈر شپ والے این ڈی اے کے کنوینر رہے شرد یادو اب نئے مورچے میں سرگرم کردار میں آگئے ہیں۔ بدھوار کو ان پارٹیوں کی میٹنگ کے بعد انہوں نے دعوی کیا کہ یہ سانجھیداری محض پارلیمانی عمل تک محدود نہیں رہے گی بلکہ جلد ہی سبھی پارٹیوں کا مشترکہ پروگرام بھی سامنے آئے گا۔ انہوں نے کہا ہمارا پروگرام یہ یقینی کرنا ہے کہ لوگ کیسے اپنا گزر بسر کرسکیں۔ دیش کے سیکولرازم کے ڈھانچے کو کیسے محفوظ رکھا جا سکے اور کرپشن پر کیسے قابو پایا جائے۔ 15 ویں لوک سبھا کا یہ آخری اجلاس ہے جس کے ختم ہونے میں صرف دو ہفتے بچے ہیں۔ اگر موجودہ لوک سبھا میں ان 11 پارٹیوں کی طاقت کی بات کریں تو ان کے پاس 92 سیٹیں ہیں یہ مورچہ کیوں بنا ہے؟ جواب ہے 1996ء میں لوک سبھا چناؤ میں کسی پارٹی کو اکثریت نہیں ملی تھی بھاجپا (161+26) 13دن کی ہی سرکار بنا سکی تھی۔کانگریس (140) نے کوشش نہیں کی ۔ ایسے میں جنتادل ،سپا، ٹی ڈی پی کے نیشنل فرنٹ (79) اور لیفٹ فرنٹ (52) نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کر کانگریس کی حمایت سے سرکار بنائی۔ اس بار بھی ان پارٹیوں کو بھی ایسی امید ہے ان کا تجزیہ ہے کہ 2014ء لوک سبھا چناؤ میں بھی نہ تو بھاجپا کو نہ ہی کانگریس کو واضح اکثریت ملنے جارہی ہے۔ معلق پارلیمنٹ میں ان کا کردار اہم ہوجائے گا۔ کانگریس بھی یہ ہی چاہتی ہے بھاجپا کو دور رکھنا سبھی کا مقصد ایک ہی ظاہر ہوتا ہے۔ کانگریس تو جانتی ہے موجودہ ماحول میں اسے 100 سے کم سیٹیں ملنے کے امکان ہیں جبکہ بھاجپا200+ تک محدود ہوسکتی ہے۔ یہ کانگریس کااندازہ ہے۔ تیسرا مورچہ پہلے بھی بنا اور بری طرح فیل ہوا۔ 1989-90 میں نیشنل فرنٹ بنا اور وی ۔پی۔ سنگھ وزیر اعظم بنے۔ یہ سرکار سال بھر چلی ۔1996-97یونائیٹڈ فرنٹ بنا جس کے پاس192 سیٹیں تھیں اور ایچ ڈی دیوگوڑا پی ایم بنے یہ سرکار بھی سال بھر چل سکی۔1997-98 میں یونائیٹڈ فرنٹ 178 سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں آگیا اور گجرال وزیر اعظم بنے اور یہ بھی سال بھر چلی۔ تاریخ گواہ ہے جب جب تیسرے مورچے کی سرکار بنی دیش کئی سال پیچھے چلا گیا۔ یہ صوبیدار اکھٹے تو ہوجاتے ہیں لیکن ان کا ایجنڈا قومی تو ہوتا ہے لیکن اس میں قومی ویژن نہیں ہوتا۔ دیو گوڑا کبھی بھی کرناٹک سے باہر نہیں نکلے۔ وی پی سنگھ صرف منڈل کمیشن لاگو کرنے کے لئے وزیر اعظم بنے۔ پھر ان لیڈروں میں ایک سے زیادہ پی ایم امیدوار ہیں۔ پی ایم کون بنے گا یہ طے کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اگر کم از کم مشترکہ پروگرام کی بنیاد پر کوئی متحدہ محاذ بنتا ہے تو وہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس میں پی ایم کون ہوگا یہ پہلے سے طے کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟