ایک غلط بیان سے راہل خود بھی پھنسے اور پارٹی کو بھی پھنسایا!

1984ء کے سکھ مخالف دنگوں پر راہل گاندھی کے بیان سے 30 سال پرانا یہ معاملہ لوک سبھا چناؤ سے پہلے ایک بار پھر گرماگیا ہے۔ اس سے کانگریس جہاں بیک فٹ پر ہے وہیں دوسری راجنیتک پارٹیوں کو کانگریس پر حملہ کرنے کا ایک سنہری موقعہ مل گیا ہے۔ بھاجپا اور اکالی دل (بادل) دنگا متاثرین کو انصاف دلانے کی مانگ کو لیکر سڑکوں پر اترآئے ہیں۔ وہیں سکھ دنگوں کی غیر جانبدارانہ جانچ کے لئے دہلی کی ’آپ‘ سرکار نے خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کرنے کی پہل کردی ہے۔ جس کا اکالی دل اور بھاجپا بھی سمرتھن کررہے ہیں۔ اس ہلچل کے مدنظر اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاں ایک طرف بھاجپا کو یہ فائدہ ہورہا ہے کہ 2002ء کے گجرات دنگوں پر کانگریس کی مہم کو دھکا لگا ہے وہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے دنوں میں دہلی میںیہ معاملہ اور طول پکڑے گا۔ ٹی وی چینلوں میں ایک بار پھر آپریشن بلو اسٹار پر بحث چھڑ گئی ہے۔ سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔گذشتہ10 سالوں سے لگاتار دیش کی حکومت چلا رہی کانگریس کو ان دنوں اس کہاوت کی ٹیس ستارہی ہوگی۔ راہل گاندھی کو تیاری سے ٹائمس ناؤ ٹی وی چینل پر انٹرویو کے لئے اتارا گیا تھا۔ پارٹی کو امید رہی ہوگی کہ یہ انٹرویو دیش بھر میں بحث کا موضوع بنے گا اور اس میں پردھان منتری کی دعویداری کے لئے راہل کی چھوی کو پختہ شکل ملے گی۔ بیشک انٹرویو تو خاصہ موضوع بحث بنا لیکن راہل نے ہچکتے ہوئے ان الزامات کو قبول کرتے ہوئے پارٹی کیلئے ایک نیا طوفان کھڑا کردیا ہے۔ 
دہلی میں 30 سال پہلے ہوئی دیوی اندرا گاندھی کی ہتیا کے بعد ہوئے سکھ مخالف دل دہلا دینے والے دنگوں میں کانگریس کے کئی بڑے لیڈروں کا ہاتھ تھا۔ یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے لیکن راہل نے ان الزامات کو قبول کرکے دنگوں کے زخموں کو پھر سے تازہ کردیا ہے۔الزامات درالزامات کے درمیان کانگریس کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر بحث ہورہی ہے اور کانگریس مبصرین کو جواب دینا بھاری پڑ رہا ہے۔ رہی سہی کثر دنگوں کے وقت دیش کے راشٹرپتی گیانی زیل سنگھ کے اس وقت کے پریٹ سکریٹری ترلوچند سنگھ نے پوری کردی ہے۔ ترلوچند سنگھ نے تو راہل گاندھی کے اس دعوے کی دھجیاں اڑادی ہیں کہ راجیو گاندھی کی رہنمائی میں اس وقت کی کانگریس سرکار نے دنگوں پر قابو پانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ترلوچند سنگھ کا سنگین الزام ہے کہ دنگوں پر مشوش راشٹرپتی گیانی زیل سنگھ کا فون تک راجیو گاندھی نے ریسیو نہیں کیا۔ سنگھ نے راہل کی اس بات کی پرزور الفاظ میں تردید کی کے گجرات دنگوں کے دوران مودی کا سرکار کا رخ بھی کم وبیش ایسا ہی تھا۔ مودی کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے راہل کے ترکوں پر سب سے سنگین حملہ تو کانگریس کے سب سے نزدیکی سہیوگی شرد پوار کی قیادت والی این سی پی نے کی ہے۔این سی پی نے مودی کو گھیرنے والے راہل کے ترکوں کی بخیہ ادھیڑ دی ہے اور کہا ہے کہ جب تمام عدالتوں نے گجرات کے مکھیہ منتری کو کلین چٹ دے دی تب ایسے حملوں کا کیا مطلب بنتا ہے؟ یوں تو پردھان منتری منموہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیا گاندھی سکھ مخالف دنگوں کے لئے عوامی طور سے معافی مانگ چکے ہیں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ دنگے بھڑکانے کے لئے جن نیتاؤں کو ذمہ دار مانا جاتا ہے انہیں کانگریس ہمیشہ بچانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔راجیو گاندھی نے تو ان دنگوں کو یہ کہہ تک ہلکا کرنے کی کوشش کی تھی کہ جب کوئی بڑا پیڑ گرتا ہے تو دھرتی ہلتی ہی ہے۔ ان دنگوں کے دوران دہلی میں قریب پونے تین ہزاراموات ہوئی تھیں۔ جن میں سے 400 ہتیاؤں کے معاملے درج ہوئے۔ سی بی آئی اور دہلی پولیس نے ان کی گہرائی سے چھان بین کی، الگ الگ وقت پر 8 جانچ کمیشن قائم ہوئے مگر کسی ایسے نتیجے پر نہیں پہنچ سکے جس سے متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم لگایا جاسکے۔پختہ ثبوتوں کی کمی سے 180 معاملے خارج ہوگئے۔ ابھی تک صرف20 لوگوں کو سزا سنائی جاسکی ہے۔ یہ ٹیس سکھ فرقے کو تکلیف دے رہی ہے۔راہل گاندھی اپنے سیدھے سادھے سوبھاؤکی وجہ سے پھنس گئے۔ انہوں نے یہ قبول کرلیا کے سکھ دنگوں میں کچھ کانگریسی نیتاؤں کا ہاتھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہ پوری طرح سے غیر سیاسی بیان تھا۔ پارٹی کے حکمت عملی سازوں کا ماننا ہے کہ یہ کانگریس کے نائب صدر کے سچائی سے بھرے بیان کو الٹ کر دیکھنے کا معاملہ ہے کیونکہ کانگریس پارٹی خود کئی بار ان دنگوں کیلئے سنسد سے لیکر سڑک تک معافی مانگ چکی ہے۔ حالانکہ راہل گاندھی کے پاس بھی یہ موقعہ تھا کہ وہ بھی ان دنگوں کے لئے دوبارہ معافی مانگ سکتے تھے اور پوری کہانی گجرات دنگوں کی طرف پلٹ سکتے تھے مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ سیاسی طور سے راہل گاندھی کی یہ نا اندیشی تھی کہ ایک طرف کانگریس کے کچھ نیتاؤ کا دنگوں میں ہاتھ ہونا بھی قبول کریں اور پارٹی کے نائب صدر ہونے کے ناطے اس پر کھید ظاہر نہ کریں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟