پچھلے10برسوں میں یوپی اے سرکار کو مہنگائی کی فکر نہیں ہوئی!

چناؤ سے عین پہلے مہنگائی روکنے کے اقدامات کرتی دکھائی پڑ رہی یو پی اے سرکار اپنے 10 سال کے عہد میں اسے روکنے کی مکینزم کی بنیاد نہیں رکھ سکی۔ مسلسل برسوں تک عوام کو مہنگائی کے کوڑے لگانے والی کانگریس یوپی اے سرکار کو اب جب سر پر چناؤ ہیں دام گھٹانے کے بارے میں خیال آیا ہے۔ اس نے سی این جی و پی این جی کے دام گھٹانے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں رسوئی گیس کے رعایتی سلنڈروں کی تعداد 9 سے بڑھا کر12 کردی گئی تھی اب سی این جی اور پی این جی کے داموں میں راحت دیکر خاص کر بڑے شہروں کے صارفین کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پیر کو وزیر پیٹرول و قدرتی گیس ویرپا موئلی نے جب سی این جی کے دام میں 30 فیصدی اور پی این جی کے دام میں20 فیصدی کمی کا اعلان کیا تو ان کے چہرے پر چناوی رنگ کی لکیریں صاف دکھائی پڑ رہی تھیں۔ اس کا مقصد عام آدمی کو راحت پہنچانا ہے لیکن یہ ہی فکر پچھلے دس سالوں میں اس سرکار کو کیوں نہیں ہوئی؟ سرکاری مشینری کی بے حالی کا عالم یہ ہے کہ غذائی پروڈکٹس کی مہنگائی انتہا پر پہنچ گئی ہے بازار کا حساب کتاب اتنا بگڑ گیا نہ تو مانگ بڑھنے کا فائدہ کسانوں کو مل رہا ہے اور نہ ہی ریکارڈ اناج کی پیداوار کا فائدہ عوام کو مل رہا ہے۔ مہنگائی روکنے کی ناکام کوششوں کی تنقید سرکار کی ایک رپورٹ میں کی گئی ہے۔ پلاننگ کمیشن کی سپلائی سیریز میں سرمایہ کاری موضوع پر ایک حالیہ رپورٹ یہ تسلیم کرتی ہے کہ سپلائی سیریز کے بنیادی ڈھانچے میں عدم توازن مہنگائی بڑھنے کی اہم وجہ رہا ہے۔مزے کی بات یہ ہے کہ چناؤ سے ٹھیک پہلے آئی اس رپورٹ میں پلاننگ کمیشن کی کمیٹی نے اب اس ڈھانچے کو درست کرنے سے متعلق سفارشیں کی ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے ممبر سومتر چودھری کی سربراہی والی کمیٹی نے مانا ہے کہ سبزیوں اور پھلوں کے تھوک و خوردہ داموں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بڑی منڈیوں میں پھلوں اور سبزیوں کے دام خوردہ بازار تک پہنچے پہنچے24سے40 فیصد بڑھ جاتے ہیں۔ پچھلے دو تین سال میں اس بات کی پرزور مانگ ہوتی رہی ہے کہ بڑی منڈیوں میں غذائی اجناس اور پھل سبزیوں کے کاروبار کو آسان بنایا جائے تاکہ مقابلہ جاتی ٹرینڈ لاکر ان کی قیمتوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔ مگر یوپی اے کی اہم اتحادی کانگریس کو اس کی یاد چناؤ سے ٹھیک پہلے آئی وہ بھی جب کانگریس نائب پردھان راہل گاندھی نے سبھی کانگریس حکمراں ریاستوں میں منڈی میں ترمیم کرنے کو کہا۔ یوپی اے حکومت کے عہد میں غذائی اجناس کی مہنگائی شرح ریکارڈ 18فیصدی کو پار کر گئی۔ رہا سوال سی این جی اور پی این جی کے داموں میں کمی کا ۔ اس کا اثر صرف میٹرو شہروں میں نظر آئے گا۔ باقی عام آدمی کو راحت کیسے ملے گی اس کا جواب اس حکومت کے پاس نہیں ہے۔ دنوں دن استعمال کی چیزوں کے دام یقینی طور سے کم ہونے چاہئیں۔مہنگائی عام آدمی کی کمر توڑ رہی ہے دال 100روپے کلو بکی، کبھی پیاز کے دام100روپے ہوگئے، پورے دیش میں ہائے توبہ مچی رہی۔ جب جنتا کی طرف سے یا میڈیا کی طرف سے سوال اٹھائے گئے تو بڑے الٹے سیدھے جواب دئے گئے۔ وزیر اعظم نے کہا پیسے پیڑ پر نہیں اگتے، مفت کی رسوئی گیس پر سبسڈی کم کرنا معیشت کو آگے بڑھانے کیلئے ضروری ہے۔ وزیر خوراک کا بیان تھا وہ کوئی جیوتشی نہیں جو مہنگائی کم کرنے کی تاریخ بتا سکیں۔ اب جب چناؤ سر پر ہیں بنا کہے دام گھٹانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔پچھلے 10 سالوں میں عام آدمی کی پارٹی کو کوئی فکر نہیں ہوئی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟