آسمان سے گرے کھجور پر اٹکے انا ہزارے!

گاندھی وادی سماجی رضاکار انا ہزارے نے سب کو چونکادیا ہے۔ جس ڈھنگ سے وہ اپنے دائیں ہاتھ مانے جانے والے اروند کیجریوال کو اپنا آشیرواد دے رہے تھے اس سے تو لگتا تھا کہ لوک سبھا چناؤ میں وہ انہیں اپنی حمایت دیں گے لیکن انا نے اعلان کردیا ہے کہ وہ لوک سبھا چناؤ میں ترنمول کانگریس کی سربراہ محترمہ ممتا بنرجی کو اپنی حمایت دیں گے۔ نئی دہلی کے کانسٹیٹیوشن کلب آف انڈیا میں ہوئی پریس کانفرنس میں انا نے کہا کہ آج بھی وہ پریوار واد پارٹیوں کے خلاف ہیں لیکن ترنمول کانگریس کی آئیڈیالوجی سے کافی متاثر ہیں۔ کسی پنتھ و پارٹی سے ہمیشہ دور رہنے والے انا ہزارے نے کہا کہ وہ لوک سبھا چناؤ میں ترنمول کانگریس کے لئے کمپین کریں گے۔ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کیجریوال کی لوک سبھا چناؤ میں حمایت کرنے سے صاف انکارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ صرف ترنمول کو ہی حمایت دیں گے اور اس کے امیدواروں کے لئے کمپین چلائیں گے۔ ترنمول کانگریس کو اپنی حمایت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلی بار دیش اور سماج کے بارے میں سوچنے والا کوئی شخص دیکھا ہے تو وہ ہے دیدی۔ اس لئے وہ ان کی حمایت کررہے ہیں۔ انہوں نے سبھی پارٹیوں سے 17 اشو پر رائے مانگی تھی لیکن ممتا بنرجی کے علاوہ کسی اور نے جواب نہیں دیا۔ اروند کیجریوال نے بھی خط کا جواب نہیں دیا۔ میں معافی چاہوں گا لیکن میری رائے میں تو جو عزت احترام انا ہزارے کے لئے تھا ، اس میں کافی کمی آئی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے الٹے سیدھے بیان جو آرہے ہیں ا س سے ان کی ساکھ گری ہے۔ ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے سیاست دکھاوے کے لئے کچھ کرنے کے لئے کچھ اور ہوتی ہے۔ یہ اسی طرح ہوا جیسے ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہوتے ہیں۔ انا ہزارے نے جب صرف ممتا کی ان کی سادگی کیلئے تعریف کی تھی تب کوئی بات نہیں تھی اب جبکہ انہوں نے ترنمول کانگریس کے سبھی امیدواروں کے لئے کمپین چلانے کا اعلان کیا تو سوال اٹھنا فطری ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ آخر ممتا بنرجی کی سیاست میں انا کو کیا ایسا دکھائی دیا کہ وہ ان کی پارٹی کی کمپین چلانے کے لئے تیار ہوگئے۔ اس دیش میں اور بھی وزیر اعلی اور نیتا ہیں جن کی سادگی ممتا سے کم نہیں بلکہ کہیں زیادہ ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ جب سے ممتا بنرجی مغربی بنگال کی وزیر اعلی بنی ہیں انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس کی انہیں عوام کی حمایت ملے۔ الٹا ان کے راج میں لا اینڈ آرڈر ضرور خراب ہوا ہے اور اس پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔عورتوں کے ساتھ بڑھتے آبروریزی کے واقعات کو لیکر ہسپتالوں میں بچوں کی موت تک اور پارٹی نیتاؤں، ورکروں کے ذریعے کئے جارہے حملوں سے ممتا بنرجی اور ان کی سرکار کی نہ صرف کرکری ہوئی ہے بلکہ ان کی ایڈمنسٹریٹر رہی نامور مصنفہ شویتا دیوی تک نے ان کی تنقید کی ہے۔ممتا اور ان کی پارٹی دیگر پارٹیوں کے برابر ہی ہے۔ دکھ تو انا ہزارے کی سیاست پر ہورہا ہے انہیں اس طرح کا ڈھونگ نہیں کرنا چاہئے۔ اگر وہ کسی نیتا کی یا کسی پارٹی کی حمایت کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوسکتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کا فیصلہ تنقید کے دائرے میں ضرور آگیا ہے۔ جس طرح انا ہزارے کو ایک عزت ملی تھی وہ نیچے آجائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟