ممبران کی پارلیمنٹ میں جانے سے پہلے تلاشی کا سوال!

جمعرات کو لوک سبھا میں جو کچھ ہوا وہ بیحد شرمناک تو تھا ہی ساتھ ساتھ اس سے ایک سنگین سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ ممبران کی پارلیمنٹ کے اندر پختہ حفاظت کا کیا انتظام کیاجائے؟اس دن تو مرچ اسپرے نہ جانے کیا کیا نکلا۔ مستقبل میں اگر کوئی ایم پی کوئی اور خطرناک ہتھیار لیکر داخل ہوگیا اور کوئی سنگین حملہ ہوگیا تو اس کی ذمہ داری کس کی بنے گی۔ اس حادثے کے بعد اب سرکار کے سامنے ایک بڑی چنوتی کھڑی ہوگئی ہے۔ سنسد کے اندر کی سلامتی اور تلنگانہ تنازعے کو لیکر ایک ایم پی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ ایوان کے اندر سانپ لیکر آئے گا۔ ایک انگریزی اخبار نے تو سرخیوں میں لکھا تھا پارلیمنٹ انڈر اٹیک؟یعنی سنسد پر حملہ۔ سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمنٹ کمپلیکس میں داخل ہوتے وقت ممبران کی تلاشی لی جائے؟ کئی پارٹیوں کے ممبران نے دباؤ بنانا شروع کردیاہے کہ سب کی تلاشی لی گئی تو یہ ان کے وقار کے خلاف ہوگا۔ سیماندھر کے ایم پی کانگریس سے حال ہی میں نکالے گئے راج گوپال نے جمعرات کو لوک سبھا میں مرچ اسپرے کیا تھا اس پر وہ سبھی کے نشانے پر آگئے ہیں۔ تازہ سسٹم کے مطابق پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہوتے وقت ممبران کی تلاشی نہیں لی جاتی۔ دراصل ممبران کو مخصوص اختیار کا کوچ ملا ہوا ہے ایسے میں ایوان کے اندر کسی کی سرگرمی پر پولیس سیدھی کارروائی نہیں کرسکتی۔ اسپیکر کے حکم پر ہی پولیس مجرمانہ معاملہ درج کرسکتی ہے۔ لوک سبھا اسپیکر میرا کمار نے 17 فروری کو پارلیمنٹ کمپلیکس کی سکیورٹی امور کی کمیٹی کی میٹنگ بلائی ہے اس میں ممبران کی سلامتی کی جانچ سمیت دیگر متبادل پرغور کیا جائے گا۔ راج گوپال کی حرکت پر تلنگانہ کے کانگریس ایم پی پی پربھاکر نے اسپیکر کو شکایت کی ہے کہ راج گوپال اور ٹی ڈی پی ایم پی وینو گوپال ریڈی کے خلاف مجرمانہ کارروائی کی جائے۔ پارلیمنٹ سکیورٹی معاملوں کی کمیٹی کریا منڈا اس کے چیئرمین ہیں اور کانگریس سے پی سی چاکو ،بی ایس پی سے دارا سنگھ چوہان، بھاجپا سے کیرتی آزاد، سپا سے یش ویر سنگھ اور محبوب علی سمیت دیگر ایم پی کو اس مسئلے پر فیصلہ لینا ہے۔ ممبران پارلیمنٹ کی تلاشی کا فیصلہ کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق باقاعدہ بات چیت سے پہلے اسپیکر میرا کمار نے اس معاملے میں بڑی پارٹیوں کو پوری طرح سے بھروسے میں لینے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر پارٹیاں یہ ہی مشورہ دے رہی ہیں کہ سکیورٹی پختہ کرنے کے لئے تلاشی کے بجائے دوسرے متبادلوں پر غور ہونا چاہئے۔ پارلیمانی مریادا بنائے رکھنے کی ذمہ داری سبھی پارٹیوں کے ممبران کی ہے۔ ایسے میں یہ کہنا شاید ٹھیک نہیں کہ حکمراں فریق ہی حالات سنبھال سکتا ہے۔ جس پر ممبران کا کہنا ہے کہ جن ممبران نے اس دن یہ مجرمانہ فعل کیا ہے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ لوک سبھا اسپیکر مجرمانہ مقدمہ درج کرا سکتی ہیں۔ اگر اس طرح کا کوئی سخت فیصلہ وہ لیتی ہیں تو اس کا اچھا پیغام جائے گا۔ پارلیمانی امور کے وزیر کملناتھ نے حکومت کی طرف سے لوک سبھا اسپیکر کو تحریری طور سے یہ صلاح دی ہے کہ ملزم ممبران کے خلاف سخت سے سخت قدم اٹھائے جائیں کیونکہ ان لوگوں کی کرتوت سے پارلیمنٹ کی ساکھ کو دھکا لگا ہے۔ 62 برس کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی اتنی غیر اخلاقی تصویر سامنے نہیں آئی۔ لوک سبھا اسپیکر اور سکیورٹی کمیٹی کیا تجویز پیش کرتی ہے دیکھتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟