مودی۔ پاویل ملاقات امریکہ کی مجبوری، چڑھتے سورج کو سبھی سلام کرتے ہیں!

آخر کار 13 فروری جمعرات کو 9:45 پر امریکی سفیر نینسی پاول نے گجرات کے وزیر اعلی اور پی ایم ان ویٹنگ نریندر مودی سے گاندھی نگر میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر حاضری دی۔ وہ طے وقت سے پانچ منٹ پہلے پہنچ گئی تھیں۔ ان کے ساتھ امریکہ کے بھارت میں مقیم تجارتی قونصلر اور دیگر افسران بھی تھے۔ یہ ملاقات قریب ایک گھنٹے چلی۔ امریکی سفیر کی مودی ملاقات کافی اہم ہے۔ بھارت میں سیاست کے امکانی بدلے رخ کو بھانپ کر اب امریکہ نے نریندر مودی سے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ رشتے بہتر بنانے کی یہ پہلی کڑی ہے۔ امریکہ کے رخ میں تبدیلی کی وجہ عام چناؤ میں مودی کی قیادت میں سرکار بننے کا امکان ظاہر کی جارہی ہے۔امریکہ نے اس ملاقات کو اپنے رشتوں میں فروغ کا حصہ مانا ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے یہ ملاقات لوک سبھا چناؤ سے پہلے سیاسی لیڈروں اور کاروباریوں کے ساتھ اس کی مثبت پہنچ کا حصہ ہے۔محکمہ خارجہ کی ترجمان ییری ہرف نے کہا کہ بھارت میں چناؤ سے پہلے سفیر پاویل اورامریکی قونصل جنرل پورے بھارت میں سیاسی پارٹیوں کے سینئر لیڈروں اور کاروباری اداروں اور این جی او تک وسیع سطح پر پہنچ بجا رہے ہیں۔ معلوم ہو کہ امریکہ کا مودی کو لیکر 9 سال کا بائیکاٹ ختم کرتے ہوئے پاویل نے مودی سے گاندھی نگر میں ملاقات کی ہے۔ اس دوران پاویل نے مودی سے یہ بھی کہا بتایا جاتا ہے کہ امریکہ لوک سبھا چناؤ کے بعد بھارت میں اگلی نئی سرکار کے ساتھ قربت کے ساتھ کام کرنا چاہے گا۔ پاویل کے مطابق بھارت اور امریکہ سانجھے داری کافی اہمیت کی حامل اور پائیدار ہے۔دوسرے الفاظ میں نینسی پاویل نے مودی کو یہ بھی اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر وہ اگلے وزیر اعظم بنے تو امریکہ ان سے تعاون کرنے کو تیار ہے۔ امریکہ کے موقف میں تبدیلی ان کی مجبوری ہے۔ سال2002ء میں گجرات فساد ہوئے تھے اور2005ء میں امریکہ نے وزیر اعلی کو اپنے یہاں آنے کے لئے یہ کہہ کر ویزا دینے سے انکارکردیا کہ وہ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کے لئے ایک طرح سے قصوروار ہیں۔ آج وہی مودی بھاجپا کے پی ایم امیدوار ہیں اور دیش بھر میں ان کے حق میں وسیع حمایت دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ ہی نہیں عدالت نے مودی کو پچھلے دنوں فساد میں مبینہ کردار کو لیکر کلین چٹ دے دی تھی۔ ایسے میں کیا سیدھے سیدھے یہ نہیں مانا جائے کہ امریکہ جو بھارت میں بدلتے سیاسی حالات کا بخوبی احساس رکھتا ہے اور وہ لوک سبھا چناؤ کے بعد نئی بننے والی حکومت سے دوری بنا کر نہیں رکھنا چاہتا۔سیدھے سیدھے یوں کہیں کہ نریندر مودی کو لیکر امریکہ کے جھکاؤ کا اثر دونوں ملکوں کے رشتوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ امریکہ کے لئے یہ خمیازہ ہوگا کہ وہ اس سے بچنے سے پہلے اپنی سرگرمی دکھانا چاہتا ہے۔ ایک بات اور کہی جارہی ہے کہ امریکہ بھارت سمیت دنیا بھر کے بڑے لیڈروں سے نئے سرے سے بات چیت کر اپنے رشتوں کو نئی بنیاد دینا چاہتا ہے۔ بھارت کے سلسلے میں یہ بنیاد مسلسل طور پر وسیع مفادات سے جڑی ہے۔آج امریکہ اقتصادی طور پر تمام طرح سے چنوتیوں کا سامنا کررہا ہے۔ ایسے میں کسی نئی مشکل میں وہ پھنسنا نہیں چاہتا۔ مودی کو لیکر اپنے پرانے موقف کو بھی اسی دباؤ میں بدلنے کو مجبور ہے۔ سفیر نینسی پاویل کو نریندر مودی سے ملاقات کے لئے دو مہینے کا انتظار کرنا پڑا۔ پچھلے سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ہی وزارت خارجہ کے سامنے مودی سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تھی۔ دراصل لوک سبھا چناؤ سے ٹھیک پہلے امریکہ کی طرف سے مودی کے ساتھ صلاح صفائی سرکار کو راس نہیں آئی۔ یہ ہی وجہ ہے ملاقات طے ہوجانے کے بعد خود وزیر خارجہ سلمان خورشید پبلک طور سے امریکہ کو نصیحت دیتے دیکھے گئے لیکن امریکہ بھی کیا کرے چڑھتے سورج کو سبھی سلام کرتے ہیں۔ دنیا جھکتی ہے جھکانے والا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟