پارلیمنٹ سے لیکر اسمبلی تک عزت مآب کی بے ادبی!

تلنگانہ کے مسئلے کو لیکر جس ڈھنگ سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں انتہائی نا پسندیدہ برتاؤ ممبران پارلیمنٹ نے پورے دیش کے سامنے کیا ہے اس کا اثر دیش کی مختلف اسمبلیوں پر پڑنا فطری ہی تھا۔ بہت دکھ کی بات ہے کہ محترم لوگ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کی ساکھ کو تار تار کررہے ہیں۔ ان کی کرتوت سے جمہوریت کے یہ مندر شرمسار تو ہورہی رہے ہیں نہایت غلط روایت ڈال رہے ہیں۔ بدھوار کو راجیہ سبھا کے ساتھ یوپی اسمبلی اور جموں کشمیر اسمبلی بھی ان عزت مآب ممبران کی کارگزاریوں سے شرمسار ہوئی ہے۔تلنگانہ اشو کو لیکر راجیہ سبھا میں بدھوار کو ناپسندیدہ حالات پیدا ہوگئے۔ اس مسئلے پر ہنگامے کے درمیان ڈپٹی چیئرمین پی جے کرین نے ضروری دستاویز ایوان کی ٹیبل پر رکھوائے ۔اسی دوران راجیہ سبھا کے سکریٹری جنرل شمشیر کے شریف ڈپٹی چیئرمین کی ہدایت پر ایوان میں کوئی اعلان کرنے والے تھے تبھی ویل کے سامنے کھڑے تیلگو دیشم پارٹی کے وی سی ایم رمیش نے ان کے ہاتھ سے دستاویز چھیننے کی کوشش کی۔ رمیش نے حملہ آور انداز میں سکریٹری جنرل سے کاغذات چھین کر پھاڑ دئے۔ اس دوران سکریٹری جنرل کو چوٹ بھی لگی۔ لکھنؤ اسمبلی میں تو اور بھی زیادہ ناپسندیدہ حرکت دیکھنے کو ملی۔ وہاں گورنر کے ایڈریس کے دوران بڑی اپوزیشن پارٹی بہوجن سماج پارٹی کے ساتھ نیشنل لوک دل کے ممبران نے سرکار مخالف نعرے بازی کی۔ ہنگامے کے درمیان راشٹریہ لوک دل کے ممبر ویر پال اور سریش شرما نے تو ایوان میں اپنی قمیص تک اتار دی۔ بسپا کے ممبر بھی جوتے چپل پہنے ہی میزوں پر کھڑے ہوکر احتجاج جتانے لگے۔ رہی سہی کثر جموں کشمیر اسمبلی میں محترم ممبران نے پوری کردی۔ وہاں اپوزیشن پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ممبر نے ایک مارشل کو ہی تھپڑ جڑ دیا۔ اسمبلی میں وزارت ذراعت کی گرانڈ پر بحث کے دوران پی ڈی پی کے ممبر سید بشیر بے سہاروں کو دئے جانے والی راشن کی کمی کو لیکر ویل میں آگئے۔اسمبلی اسپیکر منور گل نے مارشلوں کو نعرے بازی کررہے پی ڈی پی ممبر شمشیر بشیر کو ہٹانے کی ہدایت دی۔ مارشل جب بشیر کو ایوان سے باہر لے جارہے تھے تبھی پی ڈی پی کے دیگر ممبران بھی وہاں پہنچ گئے۔ اسمبلی اسپیکر نے ان ممبران کو بھی ایوان سے باہر چلے جانے کا حکم دیا۔ جب مارشل انہیں ہٹا رہے تھے تو مارشل نے تھپڑ مادیا۔ اس طرح کا غلط برتاؤ عوام کی بات رکھنے کے نام پر ایوان میں اول جلول حرکتیں کرنے والے ممبران پارلیمنٹ، ممبران اسمبلی کو یہ خیال رکھنا ہوگا کہ وہ اخباروں اور ٹی وی چینلوں کی سرخیاں تو بٹور سکتے ہیں لیکن جمہوری نظریہ رکھنے والے ان کے ووٹر انہیں اس شکل میں قطعی پسند نہیں کریں گے اور نہ ہی اس طرح کے ڈرامے کرنے کے لئے انہیں چنا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟