20 سال بعد ایک بار پھر بنے لیفٹیننٹ گورنر دہلی کے سروے سروا!

چلو جاتے جاتے کیجریوال اینڈ کمپنی دہلی کے ممبران اسمبلی کا تو بھلا کر ہی گئے۔ ادھر میں لٹکے دہلی کے تمام ممبر اسمبلی جیت کر بھی ایم ایل اے نہیں بن پارہے تھے۔کیجریوال نے سرکار بنا کر کم سے کم ان کا تو بھلا کر ہی دیا۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی سرکار تو چلی گئی لیکن چنے ہوئے 70 ممبراسمبلی کو سرکار نہ رہنے سے کوئی پریشانی نہیںآنے والی ہے۔ انہیں پہلے کی طرح ڈولپمنٹ کے لئے کروڑوں روپے کا فنڈ ملے گا اور تنخواہ بھی باقاعدہ بینک کھاتے میں آتی رہے گی۔ خاص بات یہ ہے کہ استعفیٰ دینے کے بعد اروند کیجریوال تو اب وزیر اعلی نہیں رہے لیکن ان کی پارٹی کے ممبر اسمبلی منندر سنگھ دھیر فی الحال اسمبلی اسپیکر کی کرسی پر بنے رہیں گے۔ سرکار کے نہ رہنے کے باوجود ان کی کرسی پرکوئی آنچ نہیں آئے گی۔ دہلی اسمبلی کی معطلی کے دوران ممبران کو 54 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ بھتے ملتے رہیں گے۔ اس کے علاوہ 30 ہزار روپے دو ڈاٹا اینٹری آپریٹر رکھنے کے لئے دئے جاتے ہیں۔اسمبلی بھنگکرنے کے بجائے معطل رکھی گئی تو انہیں تنخواہ ملتی رہے گی۔ اسمبلی اسپیکر منندر سنگھ دھیر کو بھی تنخواہ و بھتہ ملتا رہے گا۔اب راجدھانی میں صدر راج نافذ ہونے کے بعد لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ دہلی کے سروے سروا ہوگئے۔ اب دہلی راجنواس سے چلے گی۔ یہ 20 سال بھی پہلی بار موقعہ آیا ہے جب بھاجپا یا کانگریس کو اکثریت نہیں ملی۔ پہلی اسمبلی میں بھاجپا کو اکثریت ملی تھی اور بعد میں تین چناؤ میں کانگریس کو اکثریت حاصل ہوئی۔ پچھلے سال ہوئے اسمبلی چناؤ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی بھی پارٹی کو سرکار بنانے لائق نمبر نہیں مل پائے۔ لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے تین متبادل تھے پہلا اسمبلی برخاست کرے، صدرراج لگائیں جو چھ مہینے تک رہ سکتا ہے لیکن نئے چناؤ اس سے پہلے بھی ہو سکتے ہیں۔ دوسرا اسمبلی کو بھنگ کرنے کے بجائے معطل رکھا جائے اور صدر راج لگا دیا جائے۔ اس درمیان سرکار بننے کے امکان تلاشے جائیں۔ تیسرا بی جے پی کو پھر سے سرکار بنانے کا موقعہ دیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی اگر خود دعوی کرے تو اسے سرکار بنانے کے لئے کہا جاسکتا ہے۔ عام طور پر جب ایک سرکار استعفیٰ دے دے تو وزیر اعلی کو کام چلاؤ مکھیہ منتری بنے رہنے کو کہا جاتا ہے لیکن ایسی کوئی قانونی پابندی نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر نے اروند کیجریوال کو کام چلاؤ وزیر اعلی بھی بنانا مناسب نہیں سمجھا اور نہ ہی ان کی اسمبلی کو بھنگ کرنے کی تجویز کو مانا۔ اور اس کے لئے وہ پابند نہیں ہیں۔ عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ کے سامنے کئی چیلنج ہیں۔ چیف ایڈمنسٹریٹر کے طور پر دہلی کی ترقی اور اسکیموں کو واپس پٹری پر لانا ہوگا۔ امکان ہے دہلی کے سسٹم کو ٹریک پر لانے کے لئے سب سے پہلے افسر شاہی میں وسیع ردوبدل کریں گے اور دیگر چنوتی میں دہلی کی کیجریوال سرکار نے سال 2014-15 کا بجٹ اسمبلی میں پیش کیا۔ اب لیفٹیننٹ گورنر کی ذمہ داری ہے کہ مصارف بجٹ کو پاس کریں تاکہ سرکار کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور ترقیاتی کاموں کے لئے فنڈ دستیاب ہوسکے۔ این ٹی پی سی نے بجلی تقسیم کمپنیوں کو بقایا ادائیگی کا وقت متعین کر الٹی میٹم دے رکھا ہے۔ انہیں بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو بقایا ادا کرکے دہلی کے شہریوں کو بجلی گل ہونے کے خطرے سے نکالنا ایک اہم چنوتی ہے۔ پچھلے چھ مہینے سے دہلی جل بورڈ کے بڑے پروجیکٹ ادھر میں لٹکے ہوئے ہیں کیونکہ ترقیاتی کاموں کی منظوری نہیں مل رہی تھی۔ جل بورڈ کو واپس پٹری پر لانا ہوگا۔ سنگم وہار جیسی کالونیوں میں پانی کو لیکر ہائے توبہ مچی ہوئی ہے۔ وہاں فوری طور پر پانی دستیاب کرانا ضروری ہے۔ دہلی اسمبلی کے 28 کالجوں کی گورننگ باڈی کے ممبر کیجریوال سرکار نے نہیں بنائے ہیں۔ اب لیفٹیننٹ گورنر کو کالج گورننگ باڈی کے 140 ممبران کی فوری تقرری کرنی ہوگی۔ سوراج بل کے ذریعے ایم ایل اے فنڈ کو محلہ سبھا میں بھیجنے کا کیجریوال سرکار کا فیصلہ تھا لیکن سوراج بل پاس نہیں ہوا پایا۔ اب لیفٹیننٹ گورنر کو سبھی ممبران کو ترقیاتی کام کے لئے فنڈ متعین کرنے کی چنوتی ہے۔ ٹرانس جمنا بورڈ کے ذریعے دہلی کے 20 اسمبلی حلقوں میں ہورہے ترقیاتی کام ٹھپ پڑے ہیں۔ بورڈ کو پھر سے سرگرم عمل کرنا اور ٹھپ پڑے کاموں کو آگے بڑھانا بھی ایک چنوتی ہوگی۔ دہلی کی سبھی آر ڈبلیو اے کو بھاگیداری ادارے سے فنڈ ملنا بند ہوچکا ہے۔ سبھی آر ڈبلیو اے فنڈ کی کمی کا شکار ہیں جس سے ترقیاتی کام میں تیزی آسکے۔ ہزاروں ٹھیکیدار ،کرمچاری اپنی نوکری کو پکی کروانا چاہتے ہیں اس لئے وہ دھرنا مظاہرے مہینے بھر سے کررہے ہیں۔ لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے یہ اہم چنوتیاں ہیں۔ دیکھیں عزت مآب نجیب جنگ ان سے کیسے نمٹتے ہیں۔ آخر میں کیجریوال سرکار کے کئی فیصلے آپسی تنازعوں میں پھنس گئے ہیں۔ ان کا ذکر میں الگ سے کروں گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟