راہل گاندھی کی بیباک جذباتی تقریر یہ سال بہت کچھ طے کرے گا

کانگریس کے نوجوان نائب صدر سے کانگریسیوں کو بہت امیدیں ہیں۔ ایک طرح سے راہل گاندھی کانگریس کی ڈوبتی نیا کا آخری سہارا ہیں ۔کانگریس نے انہیں نائب صدر بنا کر اپنی چال چل دی ہے۔وہ تاش کا ایک اکاّ ہیں۔ راہل نے منگلوار کو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں ایک بہت ہی جذباتی تقریر کی اور کئی اہم باتیں کہیں ۔ ان میں سب سے اہم جو بات ہے وہ یہ تھی کہ آنے والے عام چناؤ میں انہیں وزیراعظم کے عہدے کا دعویدار بنائے جانے کے امکانات کو خارج کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے وزیر اعظم کا عہدہ ان کی ترجیح نہیں ہے۔ ان کا مقصد پارٹی کو مضبوط کرنا اور عوام کو پارٹی سے جوڑنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے اشارہ دیا فی الحال ان کا شادی کرنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اگر میری شادی ہوئی اور بچے ہوئے تو میں بھی اوروں کی طرح چاہوں گا میرے بچے بھی میری جگہ لیں۔ راہل نے کہا کہ وہ کانگریس میں ہائی کمان کلچر کے خلاف ہیں اور اسے ختم کرنے کی سمت میں قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ جے پور چنتن میٹنگ کے بیانات سے تھوڑا آگے بڑھتے ہوئے بیباک بات چیت میں انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ وہ زمینی نہیں بلکہ پیراشوٹ سے اتارے گئے نیتا ہیں لہٰذا سانجھے داری کے ساتھ تنظیم کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تنظیم کو مضبوط کرنے کے لئے کئی امکانی اقدامات کا بھی ذکر کیا۔ راہل گاندھی کو جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے والد سورگیہ راجیو گاندھی کی یاد آجاتی ہے اور راجیو گاندھی کے قریب ہونے کی وجہ سے میں راہل کو بھی کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں لیکن راہل کو زمینی حقیقت بھی سمجھنی پڑے گی۔ دراصل مجھے لگتا ہے کہ بھاجپا میں راجناتھ ۔ مودی کی جوڑی کے بڑھتے قدموں سے کانگریس میں کھلبلی ضرور پیدا ہوئی ہے اور راہل نے اپنے ڈھنگ سے نریندر مودی کے ذریعے ہی پہلے دن دہلی میں دی گئی تقریر کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ راہل کی باتوں میں تضاد صاف نظرآتا ہے۔ آپ کانگریس تنظیم میں آئی کمزوریوں کی تو بات کرتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کے میں وزیر اعظم نہیں بنوں گا یا پی ایم بننا میری ترجیح نہیں ہے۔ اگر آپ پی ایم بننا نہیں چاہتے ، سرکار کی پالیسیوں اور ترجیحات کو ٹھیک کرنا نہیں چاہتے تو کیا محض تنظیم کو ٹھیک کرکے کانگریس کو2014ء لوک سبھا چناؤ میں کامیابی دلا سکیں گے؟ آج جنتا آپ کی منموہن سنگھ سرکار کی غلط اقتصادی پالیسیوں و کرپشن ، مہنگائی ، بگڑتے قانون و انتظام ، بجلی پانی وغیرہ وغیرہ مسائل سے بری طرح الجھی ہوئی ہے اور یہ سب آپ کی پارٹی کی سرکار کی ہی دین ہے۔ اگر آپ سرکار کی پالیسیوں کو نہیں بدلتے تو ووٹ کہاں سے آئیں گے۔ تنظیم تو تبھی کام آتی ہے جب ووٹ تیار ہوں، ووٹ کی فصل تیار ہو کاٹنے والا چاہئے۔ فصل کا ٹنے کے لئے تنظیم ضروری ہوتی ہے۔ جب نریندر مودی بنام راہل گاندھی کی لڑائی کوہم دیکھتے ہیں تو ظاہر سی بات ہے دونوں لیڈروں کی سیاسی تاریخ اور ان کی سیاسی کامیابیاں اور سرکار چلانے کا تجربہ پارلیمنٹ میں کارکردگی وغیرہ وغیرہ کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ نریندر مودی نے لگاتار تیسری مرتبہ گجرات اسمبلی چناؤ جیت کر صاف کردیا ہے کہ ان کے قول اور فعل میں پل بھر بھی فرق نہیں ہے۔ گجرات کی ترقی سب کے سامنے ہے ان کا سرکار چلانے کا تجربہ گجرات میں پارٹی چلانی کی صلاحیت پر اب کسی کو شبہ نہیں ہے۔ آج تک ان کی ایمانداری پر کوئی سوالیہ نشان نہیں لگا۔ پچھلے 10 سال میں گجرات میں کوئی فساد نہیں ہوا، بہو بیٹیاں پوری طرح محفوظ ہیں۔ ترقی کا فائدہ گجرات کی عام جنتا کو پہنچ رہا ہے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ راہل گاندھی کی کارگزاری تشفی بخش نہیں ہے۔ پارلیمنٹ میں آج تک راہل گاندھی نے کسی بھی اہم بحث میں حصہ نہیں لیا۔ سرکار چلانے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں۔بہار، اترپردیش میں راہل گاندھی کے ہاتھ میں کمان تھی نتیجہ کیا ہوا یہ سب کے سامنے ہے؟ ان ساری خامیوں کو دیکھنے کے بعد ہمیں لگتا ہے کہ راہل کو ابھی بہت محنت کرنی ہوگی۔ آگے کا راستہ کانٹوں بھرا ہے۔2014ء لوک سبھا چناؤ سے پہلے 9 ریاستوں میں جن میں کئی اہم ریاستیں شامل ہیں، چناؤ ہونا ہے۔ یہ راہل کے لئے ڈریس ریہرسل ہوگی۔ کانگریس کے اس چاپلوسی کلچر نے پارٹی کو ڈوبا دیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ راہل نے سخت محنت کرکے زمینی حقیقتوں کو قریب سے دیکھا ہے اور سمجھا ہے اب انہیں دور کرنا چاہتے ہیں۔ آج سارے دیش کی نظریں راہل گادنھی پر ٹکی ہیں۔ یہ سال طے کرے گا وہ کس طرف بڑھ رہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟