بہادر بیٹی ’نربھیہ‘ کو امریکہ سمانت کرے گا

دہلی کے وسنت وہار میں اجتماعی آبروریزی کا شکار لڑکی ’نربھیہ‘ عرف دامنی کی بہادری کی کہانی اب دنیا بھر میں چھا چکی ہے۔ 8 مارچ کو بین الاقوامی مہلا دوس ہے اس موقعہ پر امریکہ کی راجدھانی واشنگٹن میں دہلی کی اس بہادر لڑکی کے نام پر ایک بڑا ایوارڈ دینے کا اعلان ہوا ہے۔ اس کا نام ہے ’’انٹرنیشنل وومن آف کریز ایواڈر‘‘۔ نربھیہ کے ساتھ دنیا کی 9 دیگر بہادر عورتوں کویہ ایوارڈ دیاگیا ہے۔اعزاز تقریب میں امریکی صدر براک اوبامہ کی اہلیہ مشیل اوبامہ موجود رہیں گی۔ امریکی انتظامیہ نے ایک پریس نوٹ میں دہلی کی بہار لڑکی کی جم کر تعریف کی ہے۔ اس میں کہاگیا ہے کہ اس 23 سالہ لڑکی نے آخری سانس تک آبروریزوں سے مقابلہ کیا تھا۔ لیکن پچھلے سال29 دسمبر کو اس نے سنگاپور کے ایک ہسپتال میں دم توڑ دیا تھا۔ امریکہ میں مشیل اوبامہ متاثرہ کے گھروالوں کو یہ ایوارڈ دینے جارہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکی سفارتخانے نے نربھیہ کے گھروالوں سے رابطہ قائم کیا ہے۔ امریکی سرکاری خرچ پر ان کو واشنگٹن آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ یہ ابھی تک باقاعدہ طور پر تفصیل نہیں مل پائی کے متاثرہ کے گھرسے کون کون لوگ امریکہ جانے والے ہیں۔ ادھر میڈیا میں ایک مایوس کن سروے شائع ہوا ہے۔ عورتوں کی سلامتی کے لئے شروع کی گئی مرکزی اور دہلی سرکار کی تمام کوشش کے باوجوددہلی کی عورتیں خود کو محفوظ نہیں مانتیں۔ تمام کوششوں کے باوجود عورتوں کو رات کی بات چھوڑیئے دن کے اجالے میں بھی ڈر لگتا ہے۔ ان پر فقرہ کشی کئے جانے کے معاملے تھم نہیں رہے ہیں۔ اب گھروالے کام پر گئی لڑکیوں کی سلامتی کو لیکر ان سے فون پر بات کرتے رہتے ہیں۔ کہاں پہنچی ہو؟ جب تک وہ گھر واپس نہیں آجاتیں گھر والے پریشان رہتے ہیں۔جن پتھ جیسے بازار میں بھی منچلے فقرہ کشی سے باز نہیں آتے۔ ایک لڑکی نے کہا سرکار کے سکیورٹی کے دعوے بھی کھوکھلے ہیں۔ میں نے جب ایسے واقعے کی شکایت کرنے کے لئے ہیلپ لائن نمبر181 پر کال کی تو نمبر ہی نہیں ملا۔ عام شکایت ہے کہ بسوں میں تو لڑکیاں سفر کر ہی نہیں سکتیں۔ اگر کچھ ہوجائے تو کوئی مدد کو نہیں آتا۔ ایک طالبہ کہتی ہے ہر بار تو پولیس کے پاسمدد کو نہیں جاسکتے۔ کالج سے گھر پہنچنے کے لئے اگر پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کیا جائے تو وہ بھی محفوظ نہیں۔ حالانکہ میٹروکو کچھ حد تک محفوظ مانا جاسکتا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذہنیت بدلنی ہوگی۔ یہ کام نہ تو سرکار کرسکتی ہے نہ پولیس یہ کام تو سماج اور گھروں میں ہونا ہے۔ ہر ماں باپ اپنے لڑکے کی فطرت کو جانتے ہیں۔ کچھ مجبوری میں تو کچھ لاڈ پیار میں لڑکے کو سمجھاتے نہیں۔ جب تک ہمارے سماج میں عورتوں کے تئیں عزت نہیں بڑھتی اس کا حل مشکل ہے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟