اکھلیش یادو حکومت میں بڑھتا جرائم کا گراف

اترپردیش میں قانون و سسٹم نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔ یہ کہنا ہے بسپا چیف مایاوتی کا۔ انہوں نے کچھ وقت پہلے ریاست کے بگڑتے قانون و انتظام ،کرپشن اور سپا حکومت میں مسلسل بگڑتا فرقہ وارانہ بھائی چارے گی صورتحال پر سوال اٹھایا تھا۔ مایاوتی کا کہنا ہے کہ دیش کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں اترپردیش میں تیزی سے جرائم آبروریزی اور کرپشن بڑھ رہے ہیں۔ اس نے ریاست کی عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے اور گورنر بی ایل جوشی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سطح پر ان معاملوں کو آئین کے پس منظر میں سنجیدگی سے لیتے ہوئے خود جانکاری حاصل کریں اور اس کے بعد راشٹرپتی سے فوراً ریاست میں صدر راج لگانے کی سفارش کریں۔ سماجوادی پارٹی کی سرکار جب سے اقتدار میںآئی ہے ریاست میں قتل، لوٹ مار، اغوا، آبروریزی کے واقعات تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں۔ 9-10 مہینے کی سپا حکومت میں ریاست کے کئی حصوں میں فساد ہوچکے ہیں جس سے عام جنتا بری طرح نالاں ہے۔ ریاست میں سماجوادی پارٹی کے غنڈے بدمعاش اقتصادی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جبراً وصولی ،زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے میں لگے ہیں۔ قانون و انتظام کی بدحالی کے الزامات کو جھیل رہی اترپردیش میں اکھلیش یادو کی سرکار فرقہ وارانہ تشدد کے معاملے میں بھی کٹہرے میں کھڑی ہوگئی ہے۔ دو فرقوں کے درمیان بھڑکے تشدد کے معاملوں میں پچھلے دو سال کے دوران اترپردیش کا نام سب سے اوپر ہے۔ وزارت داخلہ (حکومت ہند) کے مطابق ریاست میں پچھلے سال اکتوبر تک ہی 104 فرقہ وارانہ جھگڑوں کے واقعات ہوچکے ہیں۔ ان وارداتوں میں 34 لوگوں کی جانیں گئی ہیں۔ مرکزی وزیر مملکت داخلہ آر پی این سنگھ نے حال ہی میں راجیہ سپا میں ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب کے سوال پر تحریری جواب میںیہ اطلاع دی ہے ۔ مسٹر سنگھ نے ایوان میں گذشتہ دو برس میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کی تفصیل پیش کی ہے۔ وزارت داخلہ کے اعدادو شمارکے مطابق سال2011ء میں اترپردیش میں ہی سب سے زیادہ فرقہ وارانہ جھگڑے ہوئے ہیں۔ وزارت کا کہنا ہے پولیس اور عوامی نظام ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہے لہٰذا فرقہ وارانہ دنگوں سے نمٹنے اور اس سلسلے میں اعدادو شمار رکھنے کی ذمہ داری بھی سرکار کی ہے۔ اترپردیش میں جتنی دردشا عورتوں کی ہوئی ہے شاید ہی کسی دیگر ریاست میں ہو۔ سر پھرے لوگوں نے عورتوں کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ پولیس نے خود اپنی ویب سائٹ پر یہ سچائی قبول کی ہے۔ یہ جان کر حیرانی بڑھ جاتی ہے کہ لوک لاج کے ڈر سے عورتیں ایف آئی آر درج کرانے سے بچتی ہیں۔ یوپی پولیس نے عورتوں کے لئے15 نومبر 2012ء سے شروع کی گئی ہیلپ لائن2090 کے بارے میں جانکاری دی ہے۔ اس سروس پر یکم جنوری2013ء تک 61 ہزار عورتوں نے مدد مانگی۔ ان میں سے 14 ہزار سے زیادہ معاملے چھیڑ خانی اور فقرے کسنے کے نکلے اور اغوا ، قتل اور آبروریزی کے معاملے تو آئے دن سرخیوں میں چھائے رہتے ہیں۔ تازہ کیس ڈی ایس پی ضیاء الحق کا ہے جس نے یوپی سرکار کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟