لوگوں کی زندگی مانگ رہی ’ایروم شرمیلا‘ پر خودکشی کا الزام؟

ایک مصیبت کے دور میں ستیہ گرہ جیسی عدم تشدد تحریک کے تئیں لوگوں کا عقیدت مند ہونا کسی تاریخی کارنامے سے کم نہیں ہے۔ قانون اور حالات کئی مرتبہ عجب موڑ لاتے ہیں۔ یہ متنازعہ مسلح فورس مخصوص اختیار قانون کے خلاف پرامن طریقے سے بھوک ہڑتال کررہی ’ایروم بھانو شرمیلا‘ معاملے میں دیکھا جارہا ہے جنہیں زبردستی گناہگار بنا دیا گیا ہے۔ پٹیالہ ہاؤس میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ آکاش جین کی عدالت میں اس40 سالہ خاتون ایروم شرمیلا کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ309(اقدام خودکشی) کے تحت الزام درج کیاگیا ہے۔ انہوں نے عدالت میں کہا میں لوگوں کیلئے زندگی کی مانگ کررہی تھی اس لئے میں نے مرن برت شروع کیا تھا۔ عدالت نے شرمیلا سے پوچھا کیا وہ اپنا جرم قبولتی ہیں؟ جس کے جواب میں شرمیلا نے کہا ان کا مظاہرہ عدم تشدد پر مبنی تھا اور انہوں نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی جس کے لئے اپنے آپ کو گناہ گار مانیں۔ ان کا ارادہ خودکشی کرنے کا قطعی نہیں تھا۔ ان کی نظر میںیہ کوئی جرم نہیں ہے۔ اس پر عدالت نے کہا ان کے خلاف اقدام قتل کی کوشش کے الزام میں چارج شیٹ طے کرنے کے لئے ھہلی نظر میں کافی ثبوت موجود ہیں۔ دراصل عدالت کے پاس کسی بھی اشو کو قانونی یا غیر قانونی قراردینے کے علاوہ کوئی متبادل نقطہ نظر نہیں ہے۔ ویسے یہ انصاف کی حدنہیں اس کی مریادہ ہے جسے سیدھے ریفورم کرنا ہی ایک اتفاق رائے کا عمل ہے۔ قانون کے راج کو چلانے کے لئے یہ اتفاق رائے کچھ حد تک ضروری بھی ہے البتہ عدالتی عمل کے دور میں عدالتی کمپلیکس میں ایسے کچھ تبصرے ضرور سامنے آئے ہیں جو جمہوری تقاضوں اور ضمیر کو آگے بڑھاتے ہیں۔عدالت نے اکتوبر2006ء میں جنتر منتر پر انشن کی وجہ سے شرمیلا پر خودکشی کی کوشش کے الزام طے کئے ہیں۔ بہت ممکن ہے آئی پی سی کی دفعہ309 کو جب منظور کیاگیا ہوگا تب یہ شاید اندیشہ نہ رہا ہو کہ کبھی اس کا استعمال پرامن زندگی کے لئے جمہوری اختیار کی مانگ کرنے والے کسی سنگھرش میں بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اور یہ ہی تو شرمیلا نے بھی عدالت سے کہا کہ ان کا سنگھرش موت کے لئے نہیں زندگی کے لئے ہے۔ بدقسمتی دیکھئے کے جج کی ہمدردی بھی ان کے ساتھ ہے مگر انہیں کہنا پڑا کہ انہیں بلا رکاوٹ اسپا پر فیصلہ کرنا ایک سیاسی عمل ہے۔ مگر قانون کی نظر میں انشن کرنا، خودکشی کی کوشش کے دائرے میں آتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے اسپا کو ہٹانے کی مانگ کررہی شرمیلا کو بار بار گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ 2006 ء میں درج کیا گیا مقدمہ اب سماعت کے مرحلے میں ہے۔ ایروم فوج کو ایسا کوئی خاص اختیار دینے کے خلاف لڑ رہی ہیں جو بے قصور شہریوں کے خلاف اسے تشدد آمیز کارروائی کی چھوٹ دیتا ہے۔ ان کی اس جدوجہد کے پیچھے 2000ء میں منی پور ہوائی اڈے کے پاس آسام رائفل کی گولیوں سے ہوئی 10 شہریوں کی موت کی وہ واردات ہے۔ اور ان کا پچھلے 12 سالوں سے یہ آندولن چل رہا ہے۔ بہتر تو یہ ہوتا ایروم کے عدم تشدد کے سنگھرش کے اس جواز کو سرکار اور پولیس بھی سمجھتی۔تاکہ کم سے کم اس مہان ستیہ گریہی کوعدالتی کٹہرے میں کھڑا ہونے کی نوبت نہ آتی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟