شیعوں پر مسلسل حملوں کو لیکر پاکستان میں واویلا

پاکستان میں شیعوں پر حملوں کا سلسلہ کم ہونے کے بجائے الٹا تیز ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ کے بڑے بازار میں واقع ایک اسکول کے قریب پچھلے ہفتے طاقتور بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد80 تک پہنچ چکی ہے اور20 زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر عورتیں، بچے شامل ہیں۔ اقلیتی شیعہ فرقے کو نشانہ بنا کر کیا گیا حملہ اس سال کا دوسرا بڑا حملہ مانا جارہا ہے۔ اس سے پہلے سنی دہشت پسندوں نے صوبہ سرحد کے کوئٹہ میں 10 جنوری کودو فضائی حملوں کو انجام دیا۔ اس میں 117 لوگ مرے تھے جبکہ100 زخمی ہوئے تھے۔ ان دونوں حملوں میں تقریباً 200 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد100 سے اوپربتائی جاتی ہے۔ حملے کے بعد اقلیتی فرقے میں زبردست ناراضگی پائی جاتی ہے۔ شیعہ تنظیموں نے تین دن کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں شیعہ مخالف تحریک80 کی دہائی سے شروع ہوئی۔ سنی لیڈر نواز جھنگوی نے سپہ صحابہ بنائی تھی۔ یہ شیعہ اقلیتوں پر حملہ تھا۔ اس کٹرپسند تنظیم کا واحد مقصد دہشت پھیلا تھا۔ڈیموکریٹک پارٹی کے چیف عبدالخالق ہزارا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ذریعے جولائی2011ء میں ایل ای جی کے لیڈر ملک اسحق کو ضمانت پر رہا کردینے کے بعد کوئٹہ میں شیعہ فرقے ہزارا کے ورکروں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اسحق پر100 سے زیادہ قتلوں میں شامل ہونے کا الزام تھا اور وہ14 سال جیل میں رہے لیکن ثبوتوں کی کمی کی وجہ سے رہاکردیا گیا۔ کوئٹہ میں پچھلے دنوں ان دونوں حملوں کے لئے ذمہ دار ممنوعہ تنظیم لشکر جھنگوی ایل ای جی نے دھمکی دی ہے کہ بلوچستان صوبے میں گورنر راج لاگو کئے جانے کے باوجود اقلیتی شیعہ فرقے کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ ایل ای جی کے ترجمان ابو بکر صدیق نے کہا کہ سرکار کو اس خوف میں نہیں رہنا چاہئے کہ بلوچستان میں گورنر راج لاگو ہونے کے بعد ہم اپنے دشمن شیعہ ہزارا کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ اس کے ترجمان نے دعوی کیا کہ ان کی تنظیم کے پاس دھماکو سامان سے لدی20 سے زیادہ گاڑیاں ہیں جو دشمن کو نشانہ بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اس نے کہا کوئٹہ میں شیعہ اکثریتی علاقے میں اپنے نشانوں کے لئے دہشت گرد تنظیم صرف لیڈرشپ کا حکم ملنے کا انتظار کررہی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم صدر راج یا پاکستانی فوج سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ہم شیعہ ہزارا فرقے کے لوگوں کو ان کے گھروں میں ہیں قتل کرتے رہیں گے۔
پاکستان میں کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کی مانگ اٹھنے لگی ہے۔ چوتھے دن پاکستان کے وزیر اعظم وہاں پہنچے اور ریاستی سرکار کو برخاست کردیاگیا اور گورنر راج لگادیا گیا ۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ انسانیت کے لئے اس میں بہت خطرہ ہے۔ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ 21 ویں صدی میں پاکستان کس طرف بڑھ رہا ہے؟ سماج بٹ رہا ہے، بم دھماکے تو پاکستان میں عام بات ہوچکے ہیں۔ ہزارا برادری نے نہ جانے کتنے شہیدوں کو دفنا چکی ہے۔ان کا آخر قصور کیا ہے؟ لشکر جھنگوی پر حالانکہ پابندی لگی ہوئی ہے پھر بھی وہ سوچی سمجھی حکمت عملی سے اپنی کارروائی کرنے سے باز نہیں آرہے۔ پاکستان کی زرداری حکومت کے لئے شیعوں پر یہ حملے ایک زبردست چیلنج بنتے جارہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟