اوبامہ نے سرکاری خرچ میں 4لاکھ 67 ہزارکروڑ کی کٹوتی کردی

امریکہ میں صدر براک اوبامہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور اپوزیشن ریپبلک پارٹی کے درمیان سمجھوتہ نہ ہونے کے سبب یکم مارچ سے سرکاری خرچوں میں رواں سال کے لئے 85 ارب ڈالرکی کٹوتی نافذ ہوگئی ہے۔ اگلے7 مہینے میں امریکی حکومت کو 85 ارب ڈالر یعنی قریب4 لاکھ 67 ہزارکروڑ روپے کا خرچ کم کرنا ہوگا۔فیصلے سے ساڑھے سات لاکھ سرکاری نوکریوں میں چھٹنی ہوجائے گی۔ فیصلے کے بعد 2 لاکھ سرکاری ملازمین کو چھٹی پر جانے کے نوٹس بھی دے دئے گئے ہیں۔ ان میں اکیلے محکمہ عدلیہ کے 1.15 لاکھ کرمچاری ہیں۔ چھٹی کے دوران انہیں تنخواہ بھتے بھی نہیں ملیں گے۔ حالانکہ یہ بلا تنخواہ چھٹی14 سے30 دن تک ہوگی۔ اوبامہ نے کہا کٹوتی کے سبب قریب ساڑھے سات لاکھ سرکاری ملازمتیں ختم ہوجائیں گی۔ امریکہ میں کل 27 لاکھ سرکاری ملازم ہیں۔ سب سے زیادہ اثر ڈیفنس سیکٹر میں ہوگا۔ اس سال ستمبر سے پہلے ڈیفنس بجٹ میں 13 فیصدی کی کمی کی گئی ہے۔ ناسا تعلیم اور قانون کے بجٹ میں بھی 9 فیصدی کمی کی گئی ہے۔ براک اوبامہ کچھ حد تک اتنے سخت قدم اٹھانے پر مجبور تھے۔ عراق اور افغانستان میں جنگ سے امریکی سرکار پر 16.5 ٹریلین ڈالر یعنی(8.78 لاکھ ارب روپے) کاقرض ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے 2011ء میں امریکی پارلیمنٹ میں بجٹ کنٹرول بل پاس کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق ہونے والے قرض کو کم کرنے کا طریقہ نہیں تلاش کرپاتے ہیں تو یکم جنوری2013ء سے سی ویسٹر لاگو ہوجائے گا۔اسے دو ماہ کے لئے ٹال دیاگیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ نے قریب چار ٹریلین ڈالر یعنی (2.19 لاکھ ارب روپے ) کا گھاٹا کم کرنے کے طریقوں پر کئی مرتبہ اپوزیشن جماعت ریپبلکن پارٹی سے بات چیت ہوئی ۔ پچھلے سال سپر رچ ٹیکس لگانے کی تجویز بھی لے کر آئے لیکن ریپبلکن نے اسے سرے سے مسترد کردیا تھا۔ اتفاق رائے بنانے کے لئے مالی خسارے کو دو ماہ کے لئے ٹالا گیا لیکن اس سے بھی کوئی بات نہیں بنی۔ اوبامہ نے فیصلے سے بچنے کی بہت کوشش کی لیکن ریپبلکن پارٹی کی مخالفت سے پیدا تعطل ٹوٹ نہ سکا اور نا کام ہونے پر آخر کار اوبامہ نے جمعہ کی رات 11.59 منٹ پر حکم پر دستخط کر دئے۔ قانون کے مطابق کٹوتی اگلے 10 سال تک جاری رہے تھی۔27 مارچ کو کانگریس اس مالی برس کی بچی میعاد کیلئے بجٹ پاس کرے گی۔ اپریل ۔ مئی میں بجٹ پر بحث ہونی ہے۔ اس وقت اگلے مالی سال کے لئے راستہ نکالا جاسکتا ہے۔ بات اٹکی تومئی سے اگست کے درمیان قرض حد بڑھانے پر بھی بحث ہوسکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کے آنے والے دنوں میں دونوں حل کا کوئی درمیانی راستہ نکالیں۔ مسئلے کی جڑ بنیادی نظریاتی اختلاف ہے جو تمام ترقی یافتہ اور ابھرتی معیشت والے ملکوں میں بڑھتے جارہے ہیں۔ اقتصادی مندی سے مسائل پر پڑے بوجھ کے ساتھ یہ لڑائی تیز ہوگئی ہے۔ اس لڑائی میں ایک سرے پر وہ طاقتیں ہیں جو سرکار کی عوامی بہبود کردار کو نہیں مانتیں دوسری طرف وہ پارٹیاں ہیں جو معیشت میں مداخلت کر سرکاروں کے فیصلہ کن کردار کو قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ ان میں پہلی طاقت کفایت شعاری کی حمایتی پالیسیوں کی حمایتی ہے۔جن کی مار عام آدمی اور درمیانے طبقے پر پڑتی ہے۔ دوسری طاقتیں خوشحال لوگوں پر بھی بوجھ ڈالنے کی حامی ہیں۔ امریکہ میں اسی سے تازہ بحران کھڑا ہوا ہے۔ وہاں عام لوگوں پر پڑ رہی مہنگائی کی مار زیادہ ہے۔ صدر براک اوبامہ نے حال ہی میں اپنی دوسری میعاد شروع کی ہے۔ وہ فٹا فٹ فیصلے کررہے ہیں۔ اپوزیشن ریپبلکن اوبامہ کی تیز رفتاری سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ وہ انہیں روکنے کا جہاں موقعہ ملتا ہے کوشش کررہی ہیں۔ امریکہ میں اٹھائے گئے ان اقتصادی اقدامات سے ساری دنیا متاثر ہوسکتی ہے۔ پریشانی ہمیں امریکہ میں مقیم 32 لاکھ ہندوستانی نژاد امریکیوں کے مستقبل کو لیکر بھی ہے۔ ان میں 36 فیصدی تو اکیلے ناساشہر میں کام کرتے ہیں۔ 42 ہزار ہندوستانی ڈاکٹر امریکہ میں اس وقت نوکری کررہے ہیں۔ پھر برآمد درآمدپر کیا اثر پڑے گا یہ بھی دیکھنا باقی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟