کیا بجٹ سیشن ٹھیک سے چل سکے گا؟ذمہ دار کون ہوگا؟

بجٹ اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ اشارے تو صاف ہیں کہ یہ اجلاس ہنگامے دار رہے گا۔ اول تو زیادہ دن ٹھیک طور سے نہیں چلے گا اور چلا بھی تو یوپی اے سرکار زیادہ وقت تک کٹہرے میں کھڑی رہے گی۔ اپوزیشن کے پاس بہت بارود ہے۔ ہیلی کاپٹر سودا، بھگوا آتنک واد، پیٹرول ڈیزل کی قیمتیں اور مہنگائی میں اضافہ ،بگڑتا لا اینڈ آرڈر، کورین معاملہ وغیرہ وغیرہ یہ سب اشو اٹھیں گے۔ بھگوا آتنک واد پر بھاجپا کا موقف صاف ہے جب تک وزیر داخلہ اپنا بیان واپس نہیں لیتے اور معافی نہیں مانگتے ان کا بیان جاری رہے گا۔ کانگریس پارٹی بیشک اس موقف پر اعتراض کرے لیکن تاریخ گواہ ہے کانگریس نے بھی یہ ہی سب کچھ کیا تھا جب وہ اپوزیشن میں ہوا کرتی تھی اور این ڈی اے کا راج تھا۔ تابوت گھوٹالے کو لیکر جارج فرنانڈیزکا بائیکاٹ مہینوں تک چلا، رہی بات پارلیمنٹ کو ٹھپ کرنے کی تو کانگریس یہ کیوں بھول رہی کہ جب اقوام متحدہ سکریٹری جنرل اور بعد میں امریکہ کے صدر جارج بش بھارت آئے تو انہیں سینٹرل ہال میں ممبران کو خطاب کرنا تھا لیکن کانگریس نے نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ دونوں غیر ملکی مہمانوں کو بولنے سے روک دیا۔ دیش کے بارے میں دنیا کو پتہ نہیں کہ کیا سندیش دینا چاہتے تھے؟ کانگریس کی سب سے بڑی مشکل اب یہ ہے کہ ان کے پاس پرنب مکھرجی جیسا سنکٹ موچک کوئی نہیں بچا۔ پرنب دا جیسے تیسے کرکے اپوزیشن کو منا لیاکرتے تھے اور کام چلاؤ راستہ نکال لیا کرتے تھے لیکن ان کے صدر بننے کے بعد اب کانگریس کی فلور مینجمنٹ زیرو ہوگئی ہے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے خود کمان سنبھالی ہے لیکن وہ رعوب سے زیادہ کام لیتی ہیں اور چوری اور سینا زوری دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ پارلیمنٹ کو چلانے کی ذمہ داری حکمراں فریق کی ہوتی ہے۔ ہم ایک جمہوری دیش ہیں اور جمہوریت میں اپوزیشن کو اپنی بات منوانے کے لئے پارلیمنٹ کو ٹھپ کرنے کا اختیار ہے۔ یہ کانگریس کا فرض بنتا ہے۔ یوپی اے سرکار کا فرض بنتا ہے کہ وہ اول تو اپوزیشن کی مانگوں پر سنجیدگی سے غور کرے اور ہل نکالنے کی کوشش کرے۔ ہوتا کیا ہے پارلیمنٹ ٹھپ کر جب کوئی اور راستہ نہیں نکلتا تو اپوزیشن کی مانگ آخر میں مان لیتے ہیں۔ ہم نے ٹو جی اسپیکٹرم میں اپوزیشن کی جے پی سی بنانے کے معاملے کو دیکھا کہ کس طرح سرکار پہلے نہیں مانی اور جب کام پوری طرح ٹھپ ہوگیا تو جاکر مانیں ۔ اگر وہ پہلے ہی مان جاتی تو شاید پارلیمنٹ ٹھپ نہیں ہوتی۔ حکمراں فریق کو اپوزیشن کو اپنی ایمانداری سے مطمئن کرنا پڑے گا۔ لیپا پوتی سے معاملہ بننے والا نہیں۔ پھر یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہوگا کہ صرف بھاجپا ہی پارلیمنٹ ٹھپ کرنے میں لگی رہتی ہے۔ حکمراں فریق کی ایک پارٹی بھی اپنے اشو اٹھاتی ہے۔ مثال کے طور پر کانگریس ایم پی تلنگانہ اشو اٹھا سکتے ہیں۔ ممتا مغربی بنگال میں کانگریس کی سرگرمیوں پر بھی ہنگامہ کر سکتی ہے۔ اس سب کے باوجود سبھی فریقین کی کوشش ہونی چاہئے کہ پارلیمنٹ ٹھیک ٹھاک چلے۔ آخر غریب جنتا کی کروڑوں روپے کی کمائی یوں ہی برباد ہونے سے روکنا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟