انشکا شنکر کا1’ بلین رائزنگ‘ ابھیان رنگ لایا

جب میرے پاس بھارت رتن سے سنمانت ستاروادک پنڈت روی شنکر کی بیٹی انشکا شنکر کا ایک ای میل آیا، جس میں اس نے خلاصہ کیا کے برسوں تک ان کا جنسی استحصال ہوتارہا، تو مجھے دکھ بھی ہوا اور غصہ بھی آیا۔ انشکا کا پیغام صاف تھا کہ بہت ہوچکا اب اور نہیں۔ انہوں نے مجھے’ 1 بلین رائزنگ‘ نام سے شروع کی مہم میں اپنی منظوری دینے کوکہا، جس کو میں نے بلاتاخیر منظور کرلیا۔ انشکا نے بتایا کے بچپن میں ایک ایسے شخص نے کئی برسوں تک اس سے جسمانی اور ذہنی استحصال کیا جس پر ان کے ماں باپ بیحد بھروسہ کیا کرتے تھے۔ بقول انشکا ایک عام عورت کی طرح مجھے بھی زبردستی چھیڑنے ، فقرے کسنے جیسے کئی طرح کی اذیتوں کا شکار ہونا پڑا۔ اس کا کہنا ہے کہ بچی ہونے کے سبب ان چیزوں سے وہ نمٹنا نہیں جانتی تھی۔31 سالہ ستاروادک نے آبروریزی کے بعد عورتوں کے خلاف جو آن لائن مہم ’1 بلین رائزنگ‘ چلائی،شاید انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوگا کہ وہ اتنی کامیاب ہوگی۔ راجدھانی دہلی میں عورتوں پر بڑھتے مظالم اور استحصال کے خلاف جمعرات کو ایک بار پھر سے بڑی تعداد میں عورتوں نے سڑکوں پر اتر کر ’1 بلین رائزنگ‘ مہم کی حمایت کرنے کے لئے اپنی آواز بلند کی۔ عورتیں ماتھے پر ’’بس عورتوں پر ظلم اب اور نہیں ‘‘ لکھی گلابی پٹی باندھ کر احتجاج کررہی تھیں۔ آبروریزی و تشدد کے لئے اکثر عورتوں کو چھوٹے کپڑے پہننے کے لئے ذمہ دار ٹھہرانے والے لوگوں کو دہلی کی پارلیمنٹ اسٹریٹ پر الگ الگ علاقے سے ساڑی ،کرتا پائجامہ، سوٹ شلوار، منی اسکرٹ پہنے پہنچی عورتوں کو دیکھنا چاہئے تھا،وہ کہہ رہی تھیں کہ مردوں کی ذہنیت کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان کپڑوں کو دکھانے کے پیچھے محض ایک دلیل ہے کہ عورتیں کسی بھی طرح کے کپڑے پہنتی ہیں تب بھی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ عالمی سطح پر منعقدہ ’1 بلین رائزنگ‘ مہم چاہے ہر سال منعقد ہوتی تو لیکن اس بار وہ اپنے اصلی رنگ میں دکھائی دی۔ساؤتھ ایشیا سطح پر اس کی مہم میں رنگت اور جوش بھی دکھائی دیا۔ قریب 70 تنظیموں نے مل کر کام کیا۔ دہلی میں اسے کامیاب بنانے کے لئے پچھلے چھ مہینوں سے کام چل رہا تھا۔ 200 ملکوں میں ایک ساتھ یہ مہم چلائی گئی۔ یہ مہم 10 ہزار سے زیادہ لوگوں نے13 ہزار تنظیموں نے اور دیش بھر میں اسے کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ ’’جاگو رے دہلی جاگو‘‘ ،’بند کرو، بس کرو عورتوں پر تشدد اور نہیں‘‘، ’تشدد سے آزاد زندگی جینے کا حق ہمارا‘‘ جیسے جوش برے نعروں کے ساتھ شروع ہوئی موسیقی پرمبنی ’1 بلین رائزنگ‘ مہم میں شامل کئی چہرے چاہے ایک دوسرے سے انجان تھے لیکن سبھی کی مانگیں اور کوشش ایک تھی۔ اس مہم کے ذریعے پوری دنیا سے وہ کہنا چاہتی تھیں کہ عورتوں کو برابری اور یکسانیت کے ساتھ تشدد سے پاک زندگی جینے کا حق ہے۔ ویلینٹائن ڈے پر منعقدہ اس مہم کو جو باقی مظاہروں کی طرح صرف احتجاج کا نظریہ نہیں بنایا گیا بلکہ دنیا بھر میں عورتوں کے حق اور سکیورٹی کے ساتھ آئے لوگوں کے اتحاد اور چوکسی کے جشن کے طور پر منایا گیا۔ انشکا بین الاقوامی شہرت یافتہ ستار وادک پنڈت روی شنکر کی بیٹی ہیں۔ ان کے اس خلاصے سے بیحد اہم اور تمام آئینی پہلوؤں پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔ پنڈت روی شنکر کسی غریب ناخواندہ اور ایک مشترکہ کنبے کے فرد نہیں تھے ، ان کے بیٹی ایسی خوشحال اور جدید طرز کی زندگی میں پلی بڑھی تھی جن کا ایک پاؤں بھارت میں دوسرا پاؤں بیرونی ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن انشکا کے اس سنسنی خیز انکشاف سے صاف ہوتا ہے کہ بچیوں کے جنسی استحصال کا ٹرینڈ کچھ خاص طرح کے سماج یا ماحول تک محدود نہیں ہے۔ یہ مبینہ اونچی سوسائٹی میں موجود ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس خلاصے سے عام تصور بھی غلط ثابت کرتا ہے کہ آرٹ اور کلچر وغیرہ سے وابستہ لوگ تشدد اور جرائم اور استحصال جیسی ذہنی بیماریوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ حالانکہ انشکا نے اس بے بھروسے شخص کی پہچان ظاہر کرنے سے پرہیز کیا ہے۔ باوجود اس کے وہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ جنتا کی نظروں میں ہیروئن کا درجہ پاچکے لوگوں میں سے بہت کم ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی آپ بیتی سماج کے سامنے بیباکی سے رکھی ہے۔ جو ہمت انشکا نے دکھائی ہے امید ہے اس سے دیگر لڑکیاں بھی تلقین لیں گی اور سامنے آئیں گی۔ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم انشکا کی اس مہم کی حمایت کریں اور عورتوں کے خلاف بڑھتے مظالم کو روکنے کے لئے اپنی آواز بلند کریں۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا کچھ ہوجانے کے باوجود دہلی آج بھی عورتوں کیلئے محفوظ شہر نہیں ہے اور یہ میں اکیلے نہیں کہہ رہا ہوں۔ دہلی کی وزیراعلی شیلا دیکشت نے وزیراعظم منموہن سنگھ و وزیر داخلہ سشیل کمارشندے کو خط لکھ کر شکایت کی ہے کے دہلی میں قانونی انتظام خاص کر عورتوں کے لئے سلامتی تشفی بخش نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟