ان پرنسپلوں اور ٹیچروں کی ذہنیت کب بدلے گی؟

اسکولوں میں بچوں کے ساتھ بے رحمانہ برتاؤ کے خلاف حالانکہ سخت قانون ہیں۔ ایسے بہت سے معاملوں میں ٹیچروں، پرنسپلوں کو سزا بھی دی جاچکی ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ سدھرنے کو تیار نہیں۔ اسکول کمپلیکس میں پڑھائی لکھائی کا ماحول خوف سے پاک بنانے کے مقصد سے نصابی بحث اور مطالعہ جات معاملے میں نئی پالیسیاں تیار کی گئیں۔ نئے طور طریقے اور تعلیمی سازو سامان پر زور دیا جانے لگا ہے۔ مگر اب بھی کچھ پرنسپل اور ٹیچر پرانے رویئے پر قائم ہیں اور وہ اپنی ہٹ دھرمی اور برتاؤ سے بچوں کی پٹائی کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ کبھی کبھی بچوں کو سبق سکھانے کے چکر میں ایسی جگہ مار دیتے ہیں جس سے بچہ زندگی بھر کے لئے بیکار ہوجاتا ہے ۔ اکثر ہم سنتے اور پڑھتے ہیں کہ اسکول میں پٹائی کی وجہ سے بچے اپنے ذہنی توازن کھو بیٹھے اور کچھ نے تو خودکشی کرلی۔ جب میں نے حال ہی میں یہ خبر پڑھی کے اترپردیش ک ے بلند شہر میں ایک پرنسپل کے ہاتھوں پٹائی سے پہلی جماعت کے ایک بچے کی آنکھ کی روشنی چلی گئی تو مجھے بہت زبردست صدمہ پہنچا۔ بچے کی اس بے رحمانہ پٹائی کی وجہ تھی کہ اس کے ماتا پتا اسکول کی فیس جمع نہیں کرا سکے تھے۔ فیس اگر جمع نہیں ہوئی تھی تو اس میں معصوم بچے کا کیا قصور تھا؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پرنسپل بچے کے ماں باپ کو بلاتے اور ان سے بات کرتے۔ ظاہر سی بات ہے کہ بچہ غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہوگا۔ اخباروں میں شائع خبروں کے مطابق قومی انسانی حقوق کمیشن نے اس واردات کا خود نوٹس لیتے ہوئے بلند شہر کے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ سے اس بارے میں رپورٹ مانگی ہے۔ کمیشن نے ضلع افسر سے یہ بھی بتانے کو کہا ہے کہ وہ اسکول غریب طبقے کے بچوں کو مفت تعلیم دینے سے متعلق قواعد کی تعمیل کررہا تھا یا نہیں؟
تعلیم کا حق قانون لاگو ہونے کے بعد پرائیویٹ اسکولوں میں 25 فیصدی سیٹیں غریب بچوں کے لئے محفوظ رکھنا ضروری ہوگیا ہے۔ مگر شاید ہی کسی اسکول نے اس قواعد کو دل سے قبول کیا ہے۔ وہ غریب بچوں کے مفادات اور پریشانی کے بجائے اپنا فائدہ سب سے پہلے سوچتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی بہانے اقتصادی طور سے کمزور طبقے کے والدین سے بھی پیسے وصولتے ہیں لیکن بڑے شہروں میں پرائیویٹ اسکولوں کے ذریعے اس طرح کا برتاؤ کرنا پھر بھی سمجھ میں آتا ہے لیکن گاؤں یا قصبے کے اسکولوں کے پرنسپلوں و ٹیچروں کے ذریعے اس طرح کے پرانے دقیانوسی طریقوں کا آج بھی استعمال ہونا ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ مرکز اور ریاستی سرکار وں کو اس سمت میں اور سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے معاملوں میں کمی آئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟