کیا بیٹے کو جج باپ کے سامنے پیش ہونا چاہئے؟

سپریم کورٹ میں تو یہ روایت رہی ہے اگر کسی وکیل کا والد سپریم کورٹ میں جج ہے تو وہ وہاں سے پریکٹس چھوڑدیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس جسٹس اے ایم احمدی اور بی۔ این کھرے اس کی مثال ہیں۔ ان دونوں کے بیٹوں نے والدین کے سپریم کورٹ میں رہتے ہوئے بڑی عدالت میں آنا چھوڑدیا تھا لیکن اب بڑی عدالت میں مقرر 8 ججوں کے بچے یہاں وکالت کرتے ہیں۔ ایک جج جسٹس سے ۔ کے پرساد کے لڑکے تین ریاستوں کے اے آر آئی پینل میں ہیں۔ جن کے مقدمے ان کے والد کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہیں لیکن وہ ان مقدموں میں پیش نہیں ہوتے۔ ذرائع کے مطابق مفادات کے ٹکراؤ کے اس مسئلے سے بچنے کے لئے سپریم کورٹ نے اپنے ماتحت افسر کو باقاعدہ حکم دیا ہے کہ وہ ان مقدموں کو ججوں کے سامنے نہ لگائیں جن میں ان کے بچے وکیل ہیں۔ کم و بیش اس حکم کی تعمیل ہورہی ہے اور ابھی تک اس بارے میں کوئی خاص شکایت نہیں ملی ہے۔ سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق ایک بار ایک جج کے لڑکے کے بارے میں شکایت آئی تھی کہ وہ اپنے والد کا حوالہ دیکر لوگوں کو اثر انداز کررہا ہے۔ اس شکایت پر چیف جسٹس (اب ریٹائرڈ) نے متعلقہ جج کو آگاہ کردیا۔ جس کے بعد معاملہ سلجھ گیا۔ اس بارے میں سپریم کورٹ اے او آر ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ یہ وکالت غلط ہے۔ بچوں کو اس عدالت میں وکالت نہیں کرنی چاہئے جس میں ان کے والد جج ہوں۔ سپریم کورٹ کے ایک غیر سابق جج نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ بچوں کا سوال ہے تو فی الحال اس مسئلے پر کوئی واضح قانون نہیں ہے لیکن عدلیہ میں کرپشن کو روکنے کے لئے بنائے جارہے جج جوابدہی بل میں بھی ایسی شقیں رکھی جائیں جس میں ججوں کو اپنے لڑکوں کو باپ کے سامنے کورٹ میں وکالت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ یہ بل راجیہ سبھا میں التوا میں ہے۔ رشتے داروں کے وکالت کرنے کا مسئلے سے نمٹنے کے لئے سپریم کورٹ1997ء میں ری اسٹیٹمینٹ آف ویلیو بنائی تھی جنہیں 1999ء نے چیف جسٹس کی کانفرنس نے اتفاق رائے سے اپنایا تھا۔ اس میں شق شامل تھی کے ایسے معاملوں کی سماعت اور فیصلہ نہیں کریں گے جس میں ان کے خاندان کے قریبی دوست یا اولاد جڑے ہوئے ہیں۔ جج کا کوئی لڑکا اگر ممبر ہے تو وہ اپنے سامنے پیش نہیں ہونے دیں گے۔ میڈیا میں شائع رپورٹ کے مطابق کورٹ کے ججوں کے بچے وکالت کررہے ہیں وہ ہیں جسٹس ڈی ۔کے جین، جسٹس سوتنترکمار، جسٹس اے۔کے پٹنائک، جسٹس اے ۔ کے رادھا کرشن، جسٹس سی۔ کے پرساد، جسٹس ٹی ۔ایس ٹھاکر، جسٹس اے۔ ایس نجرو رنجنا پرکاش ڈیسائی، جسٹس ثمیر (اب ریٹائر) شامل ہیں یہ بات تو کورٹ کی ہے لیکن نچلی عدالتوں اور ریاستوں کی عدالتوں میں تو یہ مسئلہ اور بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

  1. sir, main aapki soch aur baat se ittefaq karta hoon, aapne is aawaz ko apni kalm se likh kar bahut kuch samne lane ki koshish ki hai, lekin main bhi media se kafi waqt se juda hoon aur bahut kuch dekhta aaya hoon aapki soch kable tareef hai aur misal ke aur dalele ke sath aapne paish ki hai, hona to yahi chahiye ke bete us waqt ke liye wakalat se door rahen jisse insaff karne main koi kotahi na ho aur insaaf bhi sahi soch ke sath mil sake, agr walid aur aulaad aamne samne honge to thodi mushkil ke sath insaaf par bhi ungli uthti hai...

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟