طالبانی فرمان : شیعوں سے عقیدت کا ٹکراؤہے ،و ہ ایش نندک ہیں

پاکستان میں چاہے ہندو ہوں، عیسائی ہوں انہیں تو نشانہ بنایا ہی جاتا ہے لیکن شیعوں کو نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ آئے دن شیعوں کی مساجد و جلوسوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تازہ واقعہ پاکستان کے شورش زدہ خیبر پختونخواہ صوبے میں ڈیرہ اسماعیل خاں میں ہوا ہے۔ باہری علاقے میں واقعہ ایک امام باڑے سے نکلے شیعہ جلوس کو نشانہ بنا کر سڑک کے کنارے رکھے بم کو اڑا کر7 لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا جبکہ دیگر18 زخمی ہوئے ہیں۔ چشم دید گواہوں اور پولیس نے بتایا کہ بم کو ایک کوڑے کے ڈھیر میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔ جلوس شہر کے بڑے اجتماع میں شامل ہونے جارہا تھا۔ دھماکے میں چار بچوں سمیت 7 افراد کی موت ہوگئی۔ زخمیوں میں دو بچے اور ایک پولیس ملازم شامل ہے۔ پولیس نے بتایا بم تقریباً 10 کلو گرام دھماکے کی صلاحیت کا تھا۔ اس میں بال بیرنگ اور دیگر چیزیں لگائی گئی تھیں۔ ٹی وی کے مناظر میں کئی مکانوں کی دیواریں گرتی ہوئی دکھائی گئیں۔ سن680 عیسوی میں امام حسین کی شہادت پر غم جتانے کے لئے یوم عاشورہ پر شیعہ فرقے کے لوگ جلوس نکالتے ہیں۔ تمام سکیورٹی انتظام کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ طالبان نے حملے کی ذمہ داری لی ہے۔ ان کے ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ دہشت گردوں کا شیعوں کے ساتھ عقیدت کا ٹکراؤ ہے۔ ترجمان نے اقلیتوں کو بھی توہین اسلام کا موردالزام قرار دیتے ہوئے کہا کہ طالبان ان کو بھی نشانہ بناتا رہے گا۔ اس حملے سے کچھ دن پہے جمعرات کو راولپنڈی میں ایک شیعہ جلوس کے دوران ہوئے خودکش حملے میں 23 لوگ مارے گئے تھے جبکہ60 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ خیبر پختونخواہ کے لکھوی جھاروات میں ایک شیعہ امام باڑے کے پاس حملہ آور نے خود کو اڑا لیا دھماکے میں دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے پاکستان کے گلگت۔ بلتستان علاقے میں نامعلوم بندوقچیوں نے شیعہ فرقے کے کم سے کم 26 لوگوں کو تین بسوں سے باہر اتار کر اور گولی مارکر ان کو قتل کردیا۔ بندوقچیوں نے بس مسافروں کے شناختی کارڈوں کی پہلے جانچ کی اور پھر گولی ماردی۔ پاک ٹی وی رپورٹ کے مطابق اس حملے میں قریب 15 بندوقچی شامل تھے جسے حکام نے ذاتی حملہ قراردیا۔ پہلے بھی گلگت۔ بلتستان میں بسوں پر حملے میں اقلیتی شیعہ فرقے کے درجنوں لوگ مارے جاتے رہے ہیں۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ بھارت میں چھوٹی موٹی واردات پر شیعہ فرقہ سڑکوں پر اترآتا ہے لیکن پاکستان میں ان کو چن چن کر مارا جارہا ہے اور آج تک شیعہ فرقے کے پیشواؤں اور بھارت کے شیعوں نے اس بڑھتے مظالم پر آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ پاکستان ہائی کمیشن میں اس کے خلاف مظاہرہ کیوں نہیں کیا اور اپنا احتجاج درج نہیں کرایا۔ طالبان کی نظروں میں پاکستان میں مقیم شیعہ بھی امتیازی زمرے میں آتے ہیں جس میں ہندو، سکھ و عیسائی شامل ہیں۔ طالبان نے صاف کہا ہے یہ مذہب کا ٹکراؤ اور عیش نندا کے تحت انہیں بھی نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟