اور آخر کارحکومت کو اپوزیشن کے آگے جھکنا ہی پڑا!

یوپی اے کے سپہ سالاروں نے اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کی بہت کوشش کی لیکن ایف بی آئی ایک ایسا اشو ثابت ہوا کہ آخر کار منموہن سرکار کو اس کے آگے جھکنا پڑا۔ اپوزیشن اتحاد اور عظم رنگ لیا۔ مسلسل چار دنوں تک پارلیمنٹ کی کارروائی ٹھپ کرنے والی بھاجپا اور لیفٹ پارٹیوں کے اڑیل رویئے کے آگے حکومت کو جھکنا پڑا۔ منگل کو اتحادی پارٹیوں کی میٹنگ میں اتحاد سے مطمئن ہو جانے کے بعد کانگریس کی قیادت والی یوپی اے حکومت نے خوردہ بازار میں 51فیصد غیرملکی سرمایہ کاری کے فیصلے پر مہر لگانے کے لئے بحث کے ساتھ ووٹنگ کرانے کا فیصلہ لوک سبھا اسپیکر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین پر چھوڑدیا ہے۔ سرکار قاعدہ184 کے تحت لوک سبھا میں اور قاعدہ167 کے تحت راجیہ سبھا میں بحث کو تبھی تیار ہوئی جب اس کو ایسا لگنے لگاکہ ووٹنگ میں اس کے پاس درکار نمبرپورے ہوگئے ہیں۔ ڈی ایم کے پارٹی نے اپنی کڑواہٹ کو درکنار کرتے ہوئے اسے گرنے سے روکنے کا وعدہ کیا جبکہ ممتا بنرجی کی ترنمول کانگریس ووٹنگ پر زور نہ دینے پر مان گئیں۔ یہ ہی ممتا ایف ڈی آئی سمیت کئی مسئلوں پر حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں تھیں۔ سپا اور بسپا کو آخر کار سرکار کے ساتھ رہنا ہی تھا۔ بھلے ہی وہ کتنے بھی ناٹک کرلے اس لئے وزیر اعظم کا بیان کے ہمارے پاس نمبر ہیں، یہ ہی حساب کتاب بول رہا ہے۔ اب حکومت مطمئن ہوگئی ہے لیکن سرکار کو گرنے میں تو شاید کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی خواہش نہ رہی ہو وہ تو اس مسئلے پر سنجیدہ بحث چاہتی تھی اور ووٹنگ سے پتہ چلے گا کہ کونسی پارٹی اس مسئلے پر کہاں کھڑی ہے۔ دراصل سرکار کو سب سے بڑا خطرہ تو یہ تھا کہ کہیں اس کی ساتھی پارٹیاں اس کے خلاف ووٹ نہ کردیں۔ چونکہ ڈی ایم کے کھل کر سرکار کے فیصلے کی مخالفت کررہی تھی۔ بھاجپا اور لیفٹ پارٹیاں بحث کے ساتھ ساتھ ووٹنگ پر بھی اڑی تھیں۔ پارلیمنٹ کی کارروائی پوری طرح جام تھی۔ اپوزیشن اپنی بات منوا کر جیت محسوس کررہی ہے۔
بھاجپا اور لیفٹ پارٹیوں کا مقصد سرکار کے علاوہ اسے حمایت دینے والی ان پارٹیوں کو بھی بے نقاب کرنا ہے جو خوردہ بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے معاملے پر سرکار کے خلاف آگ تو اگلتی ہیں لیکن ایوان میں اسے حمایت دینے کی دوہری چال بھی چلتی ہیں۔ بھاجپا کا نشانہ خاص کر سپا ،بسپا اور ڈی ایم کے ہے جو جنتا کے درمیان صرف باتوں کا بم پھوڑتی نظر آتی ہیں لیکن ایوان میں سرکار کی حمایت بھی کرتی ہیں۔ فلور مینجمنٹ کی ابتدائی ذمہ داری اپوزیشن سے سرکار کی ہوتی ہے اور اس کام میں وہ اس اجلاس میں کامیاب رہی۔ کیا اس حق کا استعمال نمبر جٹانے میں ہی کیا جانا چاہئے۔ ایوان چلانے کے لئے اخلاقیات اور عظم نہیں ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو سرکار پچھلے سال 7 ستمبر کو سرمائی اجلاس میں کئے گئے اپنے وعدوں پر عمل کرتی۔ تب حکومت نے کہا تھا کہ ایف ڈی آئی پر آخری فیصلہ لینے سے پہلے سرکار اس ایوان کو و سیاسی پارٹیوں و دیگر اتحادیوں کو اپنے بھروسے میں لے گی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سرکار کا پلٹی کھانا اور اس کا اڑیل رویہ پارلیمنٹ کے ٹھپ ہونے کی اہم وجہ ہے۔ دراصل یہ مغرور سرکار سمجھتی ہے کہ اسے پارلیمنٹ کی مہر کی ضرورت نہیں۔ تبھی تو وہ کہتی ہے کہ یہ فیصلہ کیبنٹ کو کرنا ہے اور کیبنٹ کے فیصلوں پر ایوان میں ووٹنگ نہیں کرائی جاتی۔ یہ عدلیہ کا اختیار ہے۔ پارلیمانی نظیر اس کی اس دلیل کو غلط مانتی ہے۔ ایم ڈی اے کے عہد میں بھارتیہ کمیونسٹ پارٹی کو بالکومیں سرمایہ کاری کے فیصلے پر ووٹنگ کرانے والے تقاضے کے تحت بحث کے ریزولوشن کی کانگریس نے بھی حمایت کی تھی۔ تب اس کے نیتا پریہ رنجن داس منشی نے کہا تھا کہ سرمایہ کاری اور نجی کرن دو الگ مسئلے ہیں۔ اگر معاہدے کے تقاضے میں شیئر51 فیصد ہے تو یہ سرمایہ کاری نہیں نجی کرن ہے۔ اس نظریئے سے ایف ڈی آئی پر ووٹنگ کے تحت پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہئے لیکن اقتدار میں موقف اور ہوتا ہے اور اپوزیشن میں اور۔ خوردہ سیکٹر میں ایف ڈی آئی کے مسئلے پر پہلے ہی بھاجپا اور لیفٹ پارٹیوں سمیت مختلف تنظیموں کے ذریعے ملک گیر تحریک چھیڑی جاچکی ہے لیکن سرکار ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔ دونوں حکمراں فریق اور اپوزیشن 2014ء کے عام چناؤ کو ذہن میں رکھ کر تانا بانا بن رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کون کتنا کامیاب ہوتا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟