آج مقدمہ ہارے گا ،کل پدم بھوشن دے دینا

اترپردیش کے دہشت گردی کے واقعات کے مسلمانوں کو بے قصور بتاکر مقدمے واپس لینے کی اترپردیش حکومت کی کوششوں کی مخالفت تیز ہوگئی ہے۔ سیاسی پارٹیوں سے لیکر عدالتوں میں اس کی مخالفت کی جارہی ہے۔آئین ساز کونسل میں کانگریس کے لیڈر نصیب پٹھان نے کہا دہشت گردی کی ملزمان پر سے مقدمے واپس لینے کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ بھاجپا پردیش پردھان ڈاکٹر لکشمی کانت باجپئی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے تلخ تبصرے کے باوجود بھی سپا سرکار نے اقتدار میں بنے رہنے کا اخلاقی حق کھودیا ہے۔ ان کا کہنا ہے دہشت گردانہ سرگرمیوں کے خلاف جہاں ایک طرف پوری دنیا لڑرہی ہے وہیں سپا حکومت دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ملزم لڑکوں کو ووٹ کے لالچ میں چھوڑے جانے کی کارروائی کررہی ہے۔ بھاجپا کے ترجمان راجندر تیواری نے کہا سپا حکومت نے ایک طبقہ خاص کو خوش کرنے کے لئے ساری حدیں پار کردی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نہ تو یہ حکومت قانون و نظم پر کوئی کنٹرول کر پارہی ہے اور نہ ہی دیش کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی سمت میں کوئی ٹھوس قدم اٹھا پا رہی ہے۔ سب سے تلخ تبصرہ الہ آباد ہائی کورٹ نے کیا ہے۔ سی آر پی ایف کیمپ پر آتنکی حملے جیسے واقعات میں ملوث لوگوں پر سے مقدمے اٹھانے کی کوشش کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کے دوران جسٹس آر کے اگروال اور آر ایس آر موریہ کی ڈویژن بنچ نے کہا یہ کون طے کرے گا کہ دہشت گرد کون ہے جب معاملہ عدالت میں ہو تو عدالت کو ہی طے کرنے دیجئے۔ حکومت خود کیسے طے کرسکتی ہے کون آتنک وادی ہے اور آتنک وادیوں پر مقدمہ ہٹانے کی پہل کر کیا حکومت دہشت گردی کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ آج دہشت گردوں کو چھوڑدیں کل ان کو پدم وبھوشن دیں گے؟ سنکٹ موچن مندر کینٹ اسٹیشن سمیت وارانسی کے کئی مقامات پر بم دھماکو میں شامل لوگوں پر مقدمے اٹھانے کے خلاف چیلنج کرنے والی اپیلوں کی سماعت کے دوران عدالت نے یہ تبصرہ کیا۔ اس معاملے کو لیکر وارانسی کے نتیا نند چوبے اور سماجی کارکن راکیش نائک نے مفاد عامہ کی عرضی دائر کی ہے اور بتایا کہ وارانسی میں ہوئے دھماکوں کے ملزمان پر مقدمے چلا ئے جارہے ہیں اور مجرمانہ معاملے ہٹانے کے لئے پردیش کے اسپیشل سکریٹری کے ذریعے 31 اکتوبر2012 ء کو جاری آدیش کو چنوتی دی ہے۔ رضاکار تنظیم کے وکیل ایس کے گپتا اور شیو شنکر ترپاٹھی وغیرہ کی دلیل تھی ملزمان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 302.307,333 اور427 اور 120B وغیرہ دفعات کے تحت مقدمے درج ہیں۔ ان کی یہ حرکت دیش دشمنی کے دائرے میںآتی ہے۔ ایسے معاملوں میں مقدمہ واپس لینے سے اس طرح کی حرکت کرنے والوں کے حوصلے بڑھیں گے۔ عرضی میں اس سلسلے میں ریاستی حکومت کے ذریعے جاری حکم کو منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ ہماری رائے میں اترپردیش سرکار کو عدالتوں پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔ اگر پولیس نے ان مقدمات میں بے قصوروں کو پھنسایا ہے تو وہ عدالت سے چھوٹ جائیں گے۔ ہم نے نئی دہلی کے لاجپت نگر بم دھماکے کے معاملے میں دیکھا کہ دہلی ہائی کورٹ نے ثبوتوں کی کمی سے دو ملزمان مرزا نثار حسین اور محمد علی کو بری کردیا۔ سماجوادی حکومت کے مفاد میں یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اس پر دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کی مہر لگے۔ یہ نہ تو اس کے لئے اچھا ہے اور نہ ہی دیش کے لئے ۔ ریاستی سرکار کو مقدمے واپس لینے کے حکم کو واپس لے لینا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟