پونٹی اور ہردیپ چڈھا کا قتل کس نے اور کیوں کیا؟معمہ برقرار

پونٹی چڈھا اور ان کے بھائی ہردیپ چڈھا کو کس نے مارا اور کیوں مارا؟ یہ اس ہائی پروفائل قتل کی واردات کے 7 دن بعد بھی واضح نہیں ہوسکا۔ شروع میں بتایا گیا کہ چھوٹے بھائی ہردیپ نے پونٹی کو مارا اور اتراکھنڈ اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین سکدیو سکھ نامدھاری کے پی ایس او نے اپنی کاربائن سے بندوق سے ہردیپ کو دو گولیاں ماردیں۔ بدھوار کو آئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پونٹی کو 7 گولیاں لگیں ، پونٹی کو 2 گولیاں ان کی چھاتی پر لگی تھیں۔ یہ دل اور پھیپھڑوں میں پھنس گئیں جس سے دل میں پنچر ہوگیا۔ پولیس کے مطابق دو گولیاں ان کے پیر اور باقی تین جسم کے نچلے حصے میں لگیں۔ وہیں ہردیپ کو جو دو گولیاں لگیں وہ جسم سے آر پار ہوگئی تھیں۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق فارم ہاؤس کے اندر اور باہر کمپلیکس میں قریب80 راؤنڈ گولیاں چلی تھیں۔ ان سبھی کے خول مل گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب اتنی گولیاں چلیں تو یہ کیسے ہوا مرنے والے صرف پونٹی اور ہردیپ دو ہی شخص تھے؟ پونٹی کے ساتھ نامدھاری بیٹھے ہوئے تھے ان کو کوئی گولی کیوں نہیں لگی؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد پولیس کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ چڈھا بھائیوں کو 9 گولیاں لگی تھیں لیکن ایک درجن سوال اب بھی ان سلجھے ہیں۔ کیا بھائیوں کا جھگڑا محض 2 فارم ہاؤسوں کو لیکر ہی تھا؟ واردات کے دوران موقعے پر کون کون موجود تھا؟ سکھدیو سنگھ نامدھاری کا پورے معاملے میں کیا کردار رہا۔ کیا سکھدیوکے کہنے پر تیاگی نے گولی ماری؟ موقعے پر کیا دیگررسوخ دار لوگ بھی موجود تھے؟ پی سی آرکو ٹیلی فون کے بعد بھی پولیس کیوں نہیں آئی اور بھنک لگی ساڑھے گیارہ بجے، یہاں گولیاں چلی ہیں؟ کیا موقعے پر جانے والے پولیس والوں کو جھگڑے کی جانکاری تھی، وہ کسی سبب چپ چاپ رہے؟ کن کن قاتلوں کی طرف سے فائرنگ ہوئی؟ راجدیو وہ شخص ہے جس نے پونٹی و ہردیپ کے درمیان ہوئے خونی کھیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ راجدیو پونٹی کی گاڑی کا ڈرائیور ہے۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ وہ فارم ہاؤس نمبر21 میں تھے۔ سنیچر کو صبح قریب ساڑھے گیارہ بجے پونٹی چڈھا باہر آئے اور ان سے پوچھنے لگے کے وہ کہاں جارہا ہے۔ اس پر راجدیو نے کہا میڈم کہیں جارہی ہیں اور وہ ان کا انتظار کررہا ہے۔ تب پونٹی نے اس سے کہا میڈم بعد میں جائیں گی پہلے سینٹرل ڈرائیور فارم ہاؤس نمبر42 چلو۔ راجدیو نے بتایا کہ ان کے ساتھ منیجر نریندر اسکور پیو گاڑی میں پیچھے سے آرہا تھا۔ جب نریندر اندر سے چابی لیکر فارم ہاؤ س کا تالا کھول رہا تھا اسی وقت ہردیپ آگئے۔ ہردیپ نے نریندر کو گالی دیتے ہوئے اس کے پیر میں گولی ماری۔ جب ہردیپ کے لینڈ کروزر گاڑی کے بونٹ پر گولی لگی تو راجدیو گاڑی سے اترکر دور چلا گیا۔ ہردیپ نے پونٹی کے اوپر گولیاں چلانی شروع کردیں تو وہ موقعہ سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اگر وہ بھاگنا نہیں تو مارا جاتا۔ انگریزی اخباروں میں ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ہردیپ نے پونٹی پر گولی انہیں مارنے کے لئے نہیں چلائی تھی۔ ان رپورٹوں میں دعوی کیا گیا ہے پونٹی نے ہردیپ کو زمین پر پٹخ دیا اور جب وہ گر گئے تو انہوں نے دونوں ہاتھوں میں پستول لی۔ پہلے پونٹی پر گولی ماری اور پھر انہوں نے پونٹی کو مارنے کی نیت سے گولی نہیں چلائی۔ 
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اتنی تو تصدیق ہوتی ہے کہ پونی کی ٹانگ میں گولی لگی۔ پولیس تصدیق کرتی ہے کہ پونٹی کو دو گولیاں ان کی ٹانگ میں لگیں ۔ پھر سے سوال اٹھتا ہے کہ پونٹی پر کس نے گولیاں چلائیں اور کیوں؟ اس میں سکھدیو سنگھ نامدھاری کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ وہ باربار صرف اپنا بیان بدل رہے ہیں بلکہ کئی دنوں سے غائب تھے۔ دہلی پولیس نے اتراکھنڈ پولیس کی مدد سے انہیں گرفتار کرلیا ہے۔ سکھدیو کو ہردیپ کے منیجر نندلال کے ذریعے درج کرائی گئی شکایت پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں یہ آٹھویں گرفتاری ہے۔ پولیس کی گرفت میں آئے سبھی لوگ پونٹی گروپ کے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے اب سکھدیو اور سچن تیاگی (سکیورٹی گارڈ) سے پوچھ تاچھ کے بعد واردات کی تصویر صاف ہونے لگی ہے۔ سکھدیو سنگھ مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں۔ اس دن وہ اپنے ساتھ غنڈے لیکر فارم ہاؤس پر زبردستی قبضہ کرنے کے لئے پونٹی کے پاس آئے تھے۔ ہم تو اب اس نتیجے پر پہنچتے جارہے ہیں اس فائرنگ میں ٹرائیگر چلانے والا کوئی اور ہی تھا۔ کبھی کبھی خیالی واقعات پر مبنی فلمیں بھی سچائی کو سامنے لانے میں کارگر ہوسکتی ہیں۔
1994ء میں فلم ساز راجیو رائے کی تھریلر فلم ’مہرہ‘ آئی تھی۔ پولیس یہ دبی زبان میں مان رہی ہے کہ کسی تیسرے فریق نے فائدہ اٹھانے کے لئے دونوں بھائیوں کو آمنے سامنے کر ان کو قتل کروادیا ہے۔ ذرائع کے مطابق فیصلہ لیا گیا ہے کہ معاملے کی جانچ کررہی پولیس کی21 ٹیموں کو یہ فلم دکھائی جائے گی جس سے کھیل کے اصلی مہرہ کو سامنے لایا جاسکے۔ فلم اداکار گلشن گروور اور رضا مراد کا اپنا اپنا گروپ ہوتا ہے۔ نصیر الدین شاہ ان دونوں گروپ کا خاتمہ کروا کر خود شہر پرراج کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے وہ اداکار سنیل شیٹی کو مہرہ بناتا ہے۔ نصیر الدین شاہ کی ایک چال پر رضا مراد اور گلشن گروور کا گروہ آمنے سامنے آجاتا ہے۔ اسی دوران افواہوں سے گمراہ تیسرا گروپ دونوں کا صفایا کردیتا ہے۔ معاملے کی جانچ کررہے پولیس افسر اکشے کمار کو سارا ماجرا کافی مشقت کے بعد سمجھ میں آتا ہے اور وہ نصیر الدین شاہ کا خاتمہ کردیتا ہے۔ پونٹی سے سب سے زیادہ پریشان شرابی مافیہ تھا۔
مغربی یوپی کے 20 ضلعوں و ریاست میں پونٹی کا سکہ چلتا تھا اور ضلع کی 40 فیصد دوکانوں پر اسی کی شراب بکتی تھی جس سے دوسرے کاروباری پریشان تھے۔ پونٹی کے رسوخ کے چلتے اب تک ا س دھندے سے جڑے لوگ احتجاج کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے تھے۔ ممکن ہے اس شراب مافیہ نے یہ قتل کی سازش رچی ہو۔ اترپردیش اور اتراکھنڈ میں شراب کے کاروبار میں کئی قتل دفن ہیں۔ 16-17 برسوں کے دوران مغربی یوپی اور اتراکھنڈ میں کئی شخصیتوں کا قتل کرایا گیا تو کئی کو پولیس مڈ بھیڑ میں مار گرا دیا گیا۔ مطلب صاف ہے جن لوگوں نے شراب کے کاروبار میں اپنا سکہ پھر سے جمانا چاہا وہ اس تعطل کو دور کرسکتے ہیں۔ اس قتل کانڈ کا ماسٹر مائنڈ کون ہے جس نے دونوں کو ایک جگہ پہنچادیا اور پھر دونوں کو راستے سے ہٹا دیا؟دہلی پولیس کو اس قتل کی گتھی کو سلجھانا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟