پلاسٹک پر پابندی کتنی کارگر ثابت ہوگی؟

راجدھانی میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا نوٹیفکیشن دہلی حکومت نے23 اکتوبر 2012ء کو جاری کیا تھا۔ نوٹیفکیشن میں پابندی کو لاگو کرنے کے لئے 30 دن کی مہلت دی گئی تھی۔ جمعرات کو یہ طے میعاد ختم ہوچکی ہے اور حکومت نے بھی جمعرات سے پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی پوری طرح سے لگانے کی تیاری کرلی ہے۔ اب تو نہ پلاسٹک تھیلیوں کی پیداوار ہوگی اور نہ ان کو منگایا جاسکے گا اور نہ ہی کوئی دوکاندار اور ہول سیلریاریڑھی والا سامان بیچنے کے لئے پلاسٹک کی تھیلیوں کا استعمال و اسٹاک رکھ سکے گا۔ یہ پابندی اخباروں کے پلاسٹک کوروں اور پلاسٹک فلموں، پلاسٹک ٹیوب پر بھی عائد ہوگی۔ اس کی خلاف ورزی کرنے پر 1 لاکھ روپے جرمانہ و پانچ سال کی سزا ہے جبکہ میڈیکل کچرا مینجمنٹ و دیگر سامان قواعد والی دفعہ1998 کے تحت استعمال ہونے والی پلاسٹک تھیلیوں پر پابندی عائد نہیں ہوگی۔ ایک ماہر کے مطابق فی الحال دہلی میں پلاسٹک بیگ بنانے کے قریب400 کارخانے چل رہے ہیں۔ ان کا سالانہ کاروبار 800 کروڑ روپے سے لیکر 1000 کروڑ روپے تک کا ہے۔ دہلی سرکار نے بیشک پلاسٹک تھیلیوں پر پابندی لگادی ہے۔اسے لاگو کرنا اتنا آسان نہیں۔ ماہرین کی مانیں تو سرکار کے پاس جہاں پلاسٹک کی پیداوار ہورہی ہے فیکٹریوں کا پورا ریکارڈ نہیں ہے وہیں بذریعہ ٹرین، جہاز، بس اور دوسری ریاستوں سے آرہی پلاسٹک پر بھی اس کا زیادہ زور نہیں چلے گا۔ 
مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ منظم سیکٹر میں پلاسٹک کی پیداوار و اس کو سپلائی کرنے والے قریب 150 کارخانے ہیں جبکہ اس سے 10 گنا زیادہ غیر منظم سیکٹر میں بنتی ہیں۔ وہیں دوسری رپورٹ کے مطابق حضرت نظام الدین ، نئی دہلی و دہلی ریلوے اسٹیشن سے روزانہ قریب 7 ہزار کلو گرام ، وہیں انٹر نیشنل ایئر پورٹ سے 3370 کلو پلاسٹک کچرا آتا ہے۔ زیادہ تر پلاسٹک کی پیداوار غیر منظم سیکٹر کی فیکٹریوں میں ہوتی ہے۔ یہاں سرکار کے پاس اس پر لگام لگانے کی کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تین برس پہلے 40 مائیکرون سے پتلی پلاسٹک پر لگائی گئی پابندی کارگر نہیں ہوسکی۔ دوبارہ اڑچن یہیں کھڑی ہوگی۔ جہاں ہم پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی کا خیر مقدم کرتے ہیں اور دہلی کو بڑھتی آلودگی سے بچانے کے لئے ٹھوس قدم مانتے ہیں وہیں حقیقت یہ بھی ہے پلاسٹک پر لگی پابندی پر عمل کر پانا آسان نہیں ہے۔ یہ روزمرہ کا حصہ بن چکی ہے جس کا سستا متبادل بھی بازار میں نہیں ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سرکار کے پہلے فیصلے کے مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ پابندی کو کارگر طریقے سے نافذ کرنے کے لئے پہلے سرکار کو بازار میں اس کا متبادل لانا ہوگا۔ پلاسٹک سے متعلق قاعدے قانون صاف ہیں کہ جوٹ غیرہ سے بنائی گئی تھیلیاں پلاسٹک تھیلیوں کی متبادل ہوسکتی ہیں۔ کورٹ نے پہلے ہی حکم دے رکھا ہے کہ کمپوزٹ بیگ کی پیدوار کو فروغ دینے کے لئے ٹیکس میں چھوٹ دینی چاہئے ساتھ ساتھ پلاسٹک تھیلیوں کا متبادل بھی جلد مارکیٹ میں لانا ہوگا۔ سبھی چاہتے ہیں کہ ان پلاسٹک تھیلیوں سے چھٹکارہ ملے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟