چدمبرم نے درمیانے طبقے کا مذاق اڑایا

اپنے سینئر مرکزی وزیر سلمان خورشید کے متنازعہ بیان سے ابھی کانگریس پوری طرح سنبھلی نہیں تھی کہ مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ایک متنازعہ گولہ داغ دیا۔ منگل کو انہوں نے کہا کہ درمیانے طبقے کی ذہنیت ایسی بن گئی ہے کہ یہ لوگ آئس کریم اور پانی پر تو 15روپے خرچ کردیتے ہیں لیکن چاول گیہوں کی قیمت میں ایک روپے کے اضافے کو برداشت نہیں کرپاتے۔ چدمبرم نے مہنگائی پر سرکار کا بچاؤ کرتے ہوئے کہا کہ سرکار ہرچیز کو درمیانی کلاس کے نظریئے سے نہیں دیکھ سکتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب انہوں نے بینگلورو میں یہ بیان دیا تو اس وقت ان کی بغل میں سلمان خورشید بھی بیٹھے تھے۔ لگتا ہے دونوں نے جگل بندی رہی ہو کے پارٹی اور سرکار کو تنازعات میں گھسیٹا جارہا ہے۔ وزیر داخلہ کے اس بیان پر ہنگامہ ہونا فطری تھا کیونکہ معاملہ مہنگائی کی حمایت کا ہے اور عام آدمی سے سیدھا وابستہ ہے۔ اسی لئے پارٹی اور سرکار کو اس کی صفائی دینا مشکل ہے۔ پارٹی لیڈر شپ کے دباؤ میں سلمان خورشید کی طرح چدمبرم نے بھی صفائی تودے دی ہے لیکن تیر کمان سے نکل چکا ہے۔ یہ بیان اتنا گمراہ کن بھی ہے کہ اس پر سماج کا کوئی بھی طبقہ حمایت نہیں کرسکتا۔ چدمبرم صاحب آپ کو کیا معلوم ہے کہ درمیانی طبقہ آج کل کن حالات سے گذر رہا ہے؟ بیشک حکومت کے اعدادو شمار دہلی میں فی آدمی 1 لاکھ 76 ہزار روپے سالانہ یعنی یومیہ 482 روپے ہے لیکن اس گلابی تصویر کے پیچھے سچائی یہ ہے کہ ہر ہفتے ایک شخص دیش کی راجدھانی میں بھوک یا غریبی سے دم توڑ رہا ہے۔ دہلی کو بین الاقوامی شہر بنانے کا دعوی کرنے والی کانگریس کی ریاستی حکومت 14 سال کے عہد میں 737 لوگ یا غریبی کے سبب بھکمری کا شکار ہیں۔ ان میں 170 موتیں محض بھوک سے ہوئی ہیں۔ یہ انکشاف ہوا ہے اطلاعات حق قانون کے تحت مانگے گئے ایک جواب سے اور جہاں تک مہنگائی کا سوال ہے تو چدمبرم صاحب پچھلے دس دن کے دوران آلو پیاز سے لیکر ہری سبزیوں کی قیمتیں آسمان چھونے لگی ہیں۔ یہ قیمتیں پچھلے دس دنوں میں دوگنا سے زیادہ بڑھی ہیں اور زیادہ تر سبزیوں کے دام کم بارش ہونے کے سبب بڑھے ہیں۔ ابھی تو سروس ٹیکس کا اثر دکھائی دینا باقی ہے۔ کچھ ہی دن ہوئے حکومت کی طرف سے بیان آیا تھا کہ شہروں میں 88.65 روپے کمانے والا غریب شخص نہیں ہے۔ درمیانے طبقے کا مذاق بنادیا ہے اس حکومت ہے۔ بے عزتی پر بے عزتی کرنے پر تلے ہوئے ہیں یہ لوگ۔ خود کا حال یہ ہے کہ اربوں روپوں کے گھوٹالے کو شیر مادر سمجھ کر پردہ ڈال رہے ہیں اور جنتا کی آئس کریم پر رونا رو رہے ہیں۔ یہ سرکار مہنگائی پر قابو نہیں پارہی ہے نہ بے روزگاری پر ، نہ غریبی پر اور نہ صنعتی ترقی پر اور بات کررہے ہیں آئس کریم کی۔ اب تو دیش کے صنعت کار بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس سرکار میں نہ تو کوئی لیڈر شپ ہے اور نہ ہی سمت اور نہ ہی قوت ارادی۔ ایسے غیر سنجیدہ شخص کو وزیر مالیات بنانے کی کوشش حکمرانی کے منہ پر طمانچہ ہوگا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟