بھاجپا کو ملی نئی طاقت۔ کانگریس کو کرارا جھٹکا

اترپردیش میں میونسپل چناؤ حکمراں سماجوادی پارٹی اور بڑی اپوزشین پارٹی بی ایس پی نے نہیں لڑا تھا ایسے میں تیسرے اور چوتھے نمبر کی پارٹی کے درمیان ہوئے مقابلے میں بھاجپا کو ملی شاندار جیت دونوں پارٹیوں کے لئے اچھے برے اشارے ہیں۔ بھاجپا کے لئے اچھا اور کانگریس کے لئے برا۔ پہلے بات کرتے ہیں بھاجپا کی۔ چار ماہ پہلے اترپردیش اسمبلی کا چناؤ ہاری بھاجپا کو اس جیت سے نئی طاقت ملی ہے۔ بھاجپا کی مرکزی لیڈر شپ میونسپل چناؤ نتائج کو لیکر کافی خوش ہے اور نتائج کو 2014ء کے لوک سبھا انتخابات سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے۔ اترپردیش کے تقریباً سبھی بڑے شہروں میں میونسپل کارپوریشنوں پر بھاجپا نے پھر اپنا قبضہ جما لیا ہے۔ بھاجپا کی جیت کو اس لئے بھی اہم مانا جارہا ہے کیونکہ بھاجپا اور کانگریس دونوں نے ہی چناؤ نشان پر چناؤ لڑا تھا۔ میونسپل چناؤ کے ذریعے بھاجپا نے کانگریس سکریٹری جنرل راہل گاندھی اور کانگریس کے گڑھ مانے جانے والے امیٹھی علاقے میں بھی اپنا دبدبہ بنا لیا ہے۔ گڈکری کے مشن 2014 میں اترپردیش میں بھاجپا کا کھڑا ہونا ایک بڑی ترجیح ہے۔ اس کی کامیابی کے لئے نتن گڈکری لگاتار تجربے کررہے ہیں۔ وارانسی، لکھنؤ، گورکھپور، جھانسی، مراد آباد، میرٹھ ، آگرہ، علی گڑھ میونسپل چناؤ پر بھاجپا نے قبضہ جما لیا۔ بریلی جیسے ان شہروں میں جہاں بھاجپا اپنا میئر نہیں بنوا سکی وہ وہاں اکثریت میں ہے۔ چار ماہ پہلے فروری میں ہوئے چناؤ میں سماجوادی پارٹی کو ملی بھاری جیت کے بعد بھاجپا پست پڑ گئی تھی۔ اترپردیش میں 80 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں بھاجپا کو صرف9 سیٹیں ہی ملی تھیں۔ بھاجپا کی خاص تشویش اس بات کو لیکر تھی کہ شہری علاقوں میں بھی کمل نہیں کھل پایا تھا لیکن میونسپل چناؤ میں شہری علاقوں میں بھاجپا کا پرچم پر لہرایا ہے اور پارٹی ایک خوش آئین اشارہ مان رہی ہے۔ رہی بات کانگریس کی تو اس کے لئے یہ ایک سبق ہے جو ہار سے کوئی سبق نہیں لیتی ہے۔ کانگریس کی پردیش لیڈر شپ اتراکھنڈ کے ضمنی چناؤ میں الجھی رہی۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر سے میونسپل چناؤ میں ملی ہار کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ریتا بہوگنا جوشی سے پوچھئے جو کل ہی ستارگنج سے لوٹی ہیں۔ ان کی پریشانی اترپردیش سے زیادہ اتراکھنڈ کی تھی۔ سینئر لیڈر شپ کو بھی اترپردیش کی کوئی فکر نہیں ہے ورنہ ایک بڑے پردیش کو اہل پردھان مل جاتا تو کانگریس کو بھی کوئی نئی سیاسی سمت ملتی۔ قابل ذکر ہے کہ اتراکھنڈ کے وزیر اعلی وجے بہوگنا ستارگنج سے ضمنی چناؤ لڑ رہے تھے جو جیت گئے ہیں۔ ان کی بہن مدد کے لئے وہاں جمی ہوئی تھیں تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اترپردیش اسمبلی چناؤ میں کراری ہار کے بعد بھی کانگریس لیڈر شپ خاص کر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی نے اترپردیش میں اپنی تنظیم کو مضبوط بنانے کے لئے کچھ بھی تو نہیں کیا۔ میٹنگ پر میٹنگ ہوئی لیکن نتیجہ صفر رہا۔ یہ تب ہے جب 2014ء کے لوک سبھا چناؤ کے لئے اترپردیش کافی اہمیت رکھتا ہے۔ راہل گاندھی کا مشن2014ء میں اترپردیش کی 80 لوک سبھا سیٹیں پارٹی لیڈرشپ کے لئے کتنی ترجیح رکھتی ہیں اس میونسپل چناؤ کی تیاری سے پتا چلتا ہے۔ ایسے تو پورا ہوچکا راہل گاندھی کا مشن2014۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟