رستم ہنددارا سنگھ رام کے دھام چلے گئے

زندگی اور موت سے کئی دنوں تک لڑنے کے بعد آخر کار رستم ہند دارا سنگھ نے دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ 12 جولائی کی صبح ساڑھے سات بجے وہ موت سے ہار گئے۔ دارا سنگھ نے آخری سانس اپنے گھر میں اپنوں کے درمیان لی تھی۔ طبیعت خراب ہونے کے بعد انہیں پانچ دن پہلے 7 جولائی کو ممبئی کے کوکیلا بین ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ دارا سنگھ جو کہ اپنے پیشہ وارانہ کیریئر میں کبھی کشتی نہیں ہارے تھے خود کو زندہ دل رکھے ہوئے تھے۔یہ اندازہ شاید نہ ہو کہ جنتا ان سے کتنا پیار کرتی ہے۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ممبئی سے کمرشیل شہر میں انہیں آخری وداعی دینے کے لئے ہزاروں لوگ شامل ہوئے۔ اندھیری کے جوہو میں واقع شمشان گھاٹ اور اس کے باہر لوگوں کا ہجوم دکھائی دے رہا تھا۔ دارا سنگھ کے فیملی ڈاکٹر آر کے اگروال نے بتایا کہ دارا سنگھ کی خواہش تھی کہ وہ آخری وقت میں اپنے گھر میں ہی رہیں اور آخری وقت پر دارا سنگھ کا پورا خاندان ان کے پاس موجود تھا۔ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ پورے پانچ دن کافی مشکل میں رہنے کے باوجود دارا سنگھ کے چہرے پر ذرا بھی تکلیف کی چھایا نہیں دکھائی دی۔ مسلسل ان کے ساتھ بنے رہے ان کے اداکار بیٹے بیندو دارا سنگھ نے بتایا، پاپا کبھی بھی درد سے تڑپتے نہیں تھے۔ ہندی سنیما کے پہلے ایکشن اسٹار مانے جانے والے دارا سنگھ نے 60 کی دہائی میں بالی ووڈ میں راج کیا اور جوبلی سے کمار ٹاکیس سے لیکر ایکسلسیئر دہلی کے ہالوں میں دارا سنگھ فلموں میں دکھائی دیتے تھے، سیٹیاں بجتی تھیں تالیاں بجتی تھیں۔ دارا سنگھ اور ممتا کی جوڑی کے ایک دوسرے کے الٹ انداز کو بھی خوب سراہا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے برسوں پہلے جب ایک بار دہلی میں فری اسٹائل کشتی کا ایک پروگرام تھا تو ہمارے والد سورگیہ کے نریندر نے دارا سنگھ اور کچھ پہلوانوں کو ہمارے گھر ٹالسٹائے مارگ پر چائے پر بلایا تھا۔ دارا سنگھ، ٹائیگر جوگندر سنگھ اور دارا سنگھ کے بھائی رندھاوا آئے تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ دارا سنگھ سے ڈر گیا لیکن پتا جی نے میرا دارا سنگھ سے ہاتھ ملوایا تھا۔ یہ کتنی خوشی کی بات تھی میں اس کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔ اس وقت دارا سنگھ کا دور تھا۔ انہوں نے بھارت میں کشتیوں کو یہ نئی زندگی دی۔ ان کے پردے پر آنے سے نوجوانوں میں کشتی کا جذبہ بڑھا۔ کشتی کو ایک نیا سنمان ملا۔ پہلوانوں کی ایک نئی پہچان بنی۔ دارا سنگھ اور چنگی رام دو ایسے نام تھے جن کی وجہ سے آج بھارت کے پہلوان اتنے مقبول ہوئے۔ دارا سنگھ کے فروغ کی وجہ سے ہی آج ہم لندن اولمپکس میں کشتی میں میڈل لانے کی امید کررہے ہیں۔ دارا سنگھ کے رامائن سیریل میں ہنومان کے کردار کو کوئی نہیں بھول سکتا۔صدیوں تک دارا سنگھ کو اس کردار کے لئے یاد رکھا جائے گا۔ بھارت کی اس مہان آتما کو ہم اپنی شردھانجلی دیتے ہیں اور بھگوان سے پرارتھنا کرتے ہیں کہ ان کے پریوار کو اس دکھ کی گھڑی میں ہمت دے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟