سلمان خورشید کی لیڈر شپ کو کھری کھری

مرکزی وزیر قانون سلمان خورشید نے انڈین ایکسپریس کو دئے گئے ایک انٹرویو میں کانگریس لیڈر شپ پر سیدھا حملہ بول دیا ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں کہا کہ پہلے مختصر میں قارئین کو یہ بات بتا دوکہ کانگریس کے یووراج راہل گاندھی کیسیو رول یعنی مختصر کردار نبھا رہے ہیں اور کانگریس بے سمت ہے۔ وزیر اعظم کو لیکر انہوں نے کہا کہ پوری دنیا اقتصادی چیلنجوں سے لڑ رہی ہے اور بھارت بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے ۔ انہوں نے کہہ دیا کہ راہل گاندھی سرکار میں نمبر دو کی ذمہ داری لینے سے بچ رہے ہیں۔ پتہ نہیں چل رہا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ مزیدار بار یہ ہے کہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کے قریبی مانے جانے والے سلمان نے اس انٹرویو میں وزیر اعظم کی بھی جم کر خبر لی ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ سرکار کے حالات جس طرح سے بگڑ رہے ہیں انہیں منموہن سنگھ قابو نہیں کرسکتے۔ یوپی اے I- کی سرکار یوپی اے II- سے بہتر تھی۔ کانگریس بے سمت ہوچلی ہے، ضرورت ہے پارٹی میں نئے نظریات کو شامل کیا جائے۔ سلمان خورشید کے اس انٹرویو کے چھپتے ہی کانگریس میں کھلبلی مچ گئی ہے جیسا عام طور پر ہوتا ہے سلمان پر دباؤ ڈالا گیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ میڈیا نے ان کی باتوں کو توڑ مروڑ کر شائع کیا ہے۔ میرا مطلب یہ تھا ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ بیشک پارٹی ہائی کمان نے ڈانٹ ڈپٹ کر سلمان خورشید کو صفائی دینے پر مجبور کردیا ہو لیکن سچائی تو یہ ہے کہ کانگریس کے اندر ایک بڑا طبقہ ہے جو خورشید کی باتوں کو کافی حد تک صحیح مانتا ہے۔ کئی لیڈروں کا تو یہاں تک کہنا ہے سلمان اکیلے نیتا نہیں بلکہ ان لوگوں کی آواز ہیں جو یہ مانتے ہیں کانگریس لیڈر شپ اب اپنی لائن کھوتی جارہی ہے۔ سلمان کی باتوں نے اس بحث کو چھیڑ دیا ہے کیا راہل گاندھی کانگریس کی لیڈر شپ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ کیا پھر سے سونیا گاندھی کو لوٹ کر ساری طاقت اپنے ہاتھوں میں لینی ہوگی یا پھر راہل کے متبادل کی شکل میں کانگریس ان کی بہن پرینکا گاندھی ودیرا کی طرف دیکھے؟ دو دن پہلے ہی ٹائم میگزین میں منموہن سنگھ اور کانگریس لیڈر شپ کے لئے جیسی زبان کا استعمال ہوا تھا تقریباً وہی زبان سلمان نے بھی استعمال کی ہے۔ سلمان نے راہل گاندھی کی لیڈر شپ اہلیت اور کانگریس لیڈر شپ پر اس وقت سوال کھڑے کئے ہیں جب حال ہی میں اترپردیش بلدیاتی چناؤ میں اس کاپتا صاف ہوگیا ہے۔ اتنا ہی نہیں جس سماجوادی پارٹی کو حال ہیں میں کانگریس نے اپنی گود میں بٹھایا ہے اسے بھی بھاری نقصان ہوا ہے۔ کانگریس کلچر میں عام طور پر لیڈر شپ پر یوں سیدھا حملہ نہیں کیا جاتا لیکن کانگریس ہی یہ محسوس کرنے لگے کہ ان کی لیڈر شپ انہیں چناؤ نہیں جتا سکتی تو وہ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ بہار۔ اترپردیش انتخابات نے یہ تو صاف کردیا کہ راہل گاندھی میں اس کرشمائی لیڈرشپ کی کمی ہے جو اپنے کندھوں پر کانگریس کو جتا سکے۔ اس لئے کانگریسیوں کو اب یہ فکر ستانے لگی ہے کہ با2014ء میں لوک سبھا چناؤ کس کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں لوٹیں گے؟ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟