کیا نجی ہاتھوں میں پانی تقسیم کا انتظام دینا صحیح حل ہے؟

دہلی میں اب پانی کی پریشانی بڑھتی جارہی ہے۔ جنتا سڑکوں پر اترنے پر مجبور ہے۔ دہلی میں تاخیر سے مانسون کی دستک کی وجہ سے معاملہ الجھتا جارہا ہے۔ پینے کے پانی کی سپلائی دہلی جل بورڈ کے لئے کافی وقت سے مشکل بنی ہوئی ہے۔ اسے بہتر بنانے کے لئے کئی کوششیں ہوئیں مگر پریشانیاں کم نہیں ہوئیں آخر کر دہلی سرکار نے پانی کی سپلائی پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ حالانکہ فی الحال اسے کچھ علاقوں میں تجرباتی طور پر شروع کرنے کا خاکہ تیار کیا جارہا ہے۔ جلد ہی پوری دہلی میں اس پر عمل ہونے لگے لیکن دہلی سرکار نے دعوی کیا ہے اس سے پانی کی بربادی رکے گی، سپلائی میں آنے والی پریشانیاں دور ہوں گی اور ہر گھر کو ضرورت کے حساب سے پانی دستیاب کرانے میں مدد ملے گی۔ یہاں یہ کہنا شاید غلط نہیں ہوگا کہ حکومت دہلی کی بجلی تقسیم پرائیویٹ ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کبھی بھی تنازعات سے دور نہیں رہا۔ بجلی کی قلت کی چوطرفہ مار ،بلوں میں بے تحاشہ اضافہ اور تیز بھاگتے میٹروں کی شکایتیں آئے دن سننے کو ملتی رہتی ہیں اور ان پر کوئی غور نہیں ہوتا۔ دراصل پانی کی سپلائی میں سب سے بڑی کمی مینجمنٹ ہے۔ یہاں سپلائی کئے جانے والے پانی کا بڑا حصہ پڑورسی ریاستوں سے لینا پڑتا ہے ایسے میں جب وہ پانی روک دیتی ہیں تو دہلی میں پانی کا بحران کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس لئے جگہ جگہ برسات کا پانی جمع کرنے کی اسکیم بنائی گئی تھی مگر ابھی تک یہ اسکیم اپنی تعمیلی شکل نہیں لے پائی۔پرانی پائپ لائنوں کے اکثر پھٹ جانے سے نہ صرف روزانہ ہزاروں لیٹر پانی برباد ہوجاتا ہے بلکہ لوگوں کو ملنے والے پانی میں سیور لائنوں کی گندگی مل جاتی ہے۔ دہلی میں خراب پانی کی کوالٹی کی وجہ سے گھروں میں پانی صاف کرنے کی مشینیں لگانے پر لوگ مجبور ہوگئے ہیں۔ کئی بار منصوبہ بند طریقے سے نئی پائپ لائن بچھانے کا م بھرا گیا مگر وہ کام ابھی تک سرے نہیں چڑھ پایا۔ پانی کی چوری اور اسے بے وجہ بہانے والوں پر نکیل کسنے کے لئے کچھ سخت قاعدے قانون بنائے گئے ہیں مگر ان کی تعمیل یقینی بنانے پر زور نہیں دیا گیا۔ پینے کے پانی کی سپلائی پرائیویٹ ہاتھوں میں سونپنے کا تجربہ نیا نہیں ہے۔ دہلی حکومت تجرباتی طور پر کچھ علاقوں میں نجی کرن کا فارمولہ آزما چکی ہے لیکن عجب بات یہ ہے کہ دہلی کے جن علاقوں میں اس وقت نجی کمپنیاں پانی سپلائی کررہی ہیں وہیں سب سے زیادہ پانی کی قلت محسوس کی جارہی ہے۔ مسئلے کا حل تب تک نہیں نکلے گا جب تک پرانی پائپ لائنوں کو بدلا نہیں جاتا۔ ٹھیک میٹر نہیں لگائے جاتے۔ اخراج اور چوری کو روکا جائے۔ نجی ہاتھوں میں پانی دینے سے اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پانی کی سپلائی بہتر ہوجائے گی۔ ہاں اس سے صارفین کے پانی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا یہ طے ہے۔موجودہ پانی سپلائی نظام کو ٹھیک کرنا دہلی سرکار کی ترجیح ہونی چاہئے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟