فوکوشیما نیوکلیائی حادثہ ہندوستان کیلئے سبق

جاپان میں پچھلے سال فوکوشیما نیوکلیائی پلانٹ میں 11 مارچ کو آئے تباہ کن زلزلے اور سونامی کے بعد 6 بھٹیوں والے اس پلانٹ کو بھاری نقصان ہوا تھا۔ نیوکلیائی پلانٹ میں ہونے والے ریڈیو دھرمی اخراج کے سبب علاقے میں افراتفری مچ گئی تھی۔ ہزاروں لوگوں کو وہاں سے ہٹانا پڑا تھا۔ جاپانی پارلیمنٹ نے پچھلے سال مئی میں ایک کمیٹی بنائی تھی جسے فوکوشیما حادثے سے نمٹنے کیلئے اپنائے جانے والے طور طریقوں کی چھان بین کرنے اور اپنی سفارشیں دینے کا کام سونپا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے اپنا رپورٹ دے دی ہے۔ جانچ کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے اس وقت وزیر اعظم ناؤتی کانکی حکومت کی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے یہ پوری طرح انسان کے ذریعے پیدا کردہ ٹریجڈی تھی۔ آزادانہ جانچ کمیشن کی رپورٹ کے لب و لباب میں کہا گیا ہے کہ سرکار دیکھ بھال کرنے والے حکام اور ٹوکیو الیکٹرک پاور کے لوگوں کی زندگی اور سماج کی سلامتی کو لیکر ذمہ داری کو نبھانے میں کمی رہی۔ کمیشن نے کہا قدم اٹھانے کے کئی موقعے آنے کے باوجود ریگولیٹری ایجنسیوں اور ٹوکیو سے وابستہ حکام نے جان بوجھ کر فیصلوں کو ٹالا،کارروائی نہیں کی یا ایسے فیصلے لئے جو ان کے لئے سہولت آمیز تھے۔ فوکو شیما حادثے کے بعد جاپان کے سبھی کارخانوں کو بند کردیا گیا تھا۔ کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ اس بحران کو پہلے سے اندازہ لگا کر روکا جاسکتا تھا اور روکا جانا چاہئے تھا۔ موثر طریقے سے نمٹ کر اس کے مضر اثرات کو کم کیا جانا چاہئے تھا۔ رپورٹ میں سرکار اور فوکوشیما نیوکلیائی پلانٹ کو چلانے والی ٹوکیو کمپنی کے سطح پر سنگین لاپرواہیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے حالانکہ بحران قدرتی اسباب سے شروع ہوا لیکن اس کے بعد جو کچھ فوکوشیما پلانٹ میں ہوا اسے قدرتی آفت نہیں کہا جاسکتا۔ یہ پوری طرح انسان کے ذریعے کوتاہی سے پیدا کردہ بحران تھا جس کا اندازہ لگا کر روکا جاسکتا تھا اور روکنا چاہئے تھا۔ جاپان میں مارچ2011 ء میں آئے 9 ریختر اسکیل والے زلزلے اور سونامی میں تقریباً20 ہزار لوگوں کی موت ہوئی تھی یا وہ لاپتہ ہوگئے۔ اس ٹریجڈی کے بعد اب پہلی نیوکلیائی بھٹی چالو کی گئی ہے۔ اس بھٹی کو جرنیٹر اور ٹرانسمیشن گریٹ سے جوڑا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پیدا ہوئے اس پہلے نیوکلیائی توانائی سنکٹ کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ بھارت میں کنڈنکلم ایٹمی بجلی گھر کو لیکر ناراضگی کی آوازیں اٹھیں۔ معلوم یہ رہا کہ ماحولیاتی رضاکاروں کے ساتھ مقامی شہریوں نے اس پلانٹ کو زندگی کے لئے نقصاندہ مانا ہے۔ دیش کے سابق صدر اور نامور سائنسداں اے پی جے عبدالکلام سے لیکر وزیر اعظم منموہن سنگھ تک نے سارے اندیشوں کو مسترد کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کو فلاحی طور پر وقت کی ضرورت قراردیا ہے لیکن فوکوشیما رپورٹ نے یہ بھی بتادیا ہے کہ ایسی بھٹیوں میں انسانوں کے رول انتہائی اہم ہیں۔ یہ رپورٹ ایک وارننگ بھی ہے کہ قدرتی آفات کے خلاف تکنیک اور انتظام کی طاقت کوغیر معمولی کہنا بہت بڑی چنوتی ہے۔ اگر جاپان جیسے ترقی یافتہ اور تکنیکی طور پر اہل اور قدرتی آفات مینجمنٹ کا تال میل بگڑ سکتا ہے تو بھارت کے لئے تو یقینی طور سے یہ ایک بڑی چنوتی ہے جس سے نمٹنے کے لئے ضمیر درکار ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟