رام سیتو کو قومی وراثت مان کر پروجیکٹ منسوخ کریں

سیتو سمندرم پروجیکٹ کا معاملہ پھر سرخیوں میں آگیا ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ میں یہ معاملہ آیا۔ مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ ایک اعلی سطحی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سیتو سمندرم پروجیکٹ کیلئے زمانہ قدیم کے رام سیتو کو چھوڑ کر متبادل راستہ اقتصادی اور حالات کیلئے مناسب نہیں ہے۔ حالانکہ سرکاری وکیل نے جسٹس ایچ ایل دت اور جسٹس سی کے پرساد کی بنچ کے سامنے کہا مرکزی کیبنٹ کو ابھی نامور ماحولیاتی ماہر آر کے پچوری کی سربراہی والی کمیٹی کے ذریعے تیار رپورٹ پر غور اور فیصلہ کرنا ہے۔ بنچ نے پروجیکٹ کے آگے کی پیش رفت کے بارے میں جانکاری دینے کیلئے سرکار کو 8 ہفتے کا وقت دیا ہے۔ نریمن نے کہا کہ پچوری کمیٹی نے متبادل راستے کے مسئلے پر غور کیا لیکن وہ اس نتیجے پر پہنچی کے وہ اقتصادی اور حالات کے حساب سے موزوں نہیں ہے۔ پروجیکٹ پر عمل سے زمان�ۂ قدیم کا رام سیتو تباہ ہوسکتا ہے۔ سیتو سمندرم پروجیکٹ کے مطابق30 میٹر چوڑا 12 میٹر گہرا اور167 کلو میٹر لمبا چینل بنائے جانے کی تجویز ہے۔ رام سیتو ماحولیات یا کمرشل مسئلہ نہیں ہے یہ ایک عقیدت اور رواج کا سوال ہے۔ کروڑوں ہندوستانی خاص کر ہندوؤں نے ہزاروں برس سے یہ مانا ہے کہ یہ وہ پل ہے جو شری رام نے وانر (بندر فوج) سینا کی مدد سے لنکا کے راجہ راون تک پہنچنے کے لئے بنایا تھا۔اس میں ہر نقطہ کے حساب سے جذبات جڑے ہیں۔ پیسوں کی خاطر اس قومی وراثت کو ضائع نہیں کیا جاسکتا۔ رہی ماحولیات کی بات،ماحولیاتی ماہرین تسلیم کرتے ہیں مننار کی کھاڑی جغرافیائی طور سے بھارت کا سب سے اہم ساحلی علاقہ ہے جہاں پودوں اور جانوروں کی تقریباً 36 ہزار سے زیادہ نسلیں پائی جاتی ہیں۔ رام سیتو کو توڑے جانے سے سونامی کے قہر سے کیرل کی تباہی یقینی ہوجائے گی اور ساتھ ہی ہزاروں ماہی گیر بے روزگار ہوجائیں گے۔ پھر اس علاقے سے ملنے والے نایاب شنک اور شپ جس سے کروڑوں روپے کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے، سے لوگوں کو محروم رہنا پڑے گا۔ بھارت کے پاس یورینیم کے زیادہ متبادل تھیوریم کا دنیا میں سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اگر رام سیتو کو تھوڑ دیا جاتا ہے تو بھارت کو تھیوریم کے اس بیش قیمت ذخیرے سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ ساحلی گارڈ کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے کہ رام سیتو کو توڑنے سے دیش کی سلامتی کے لئے خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ وہیں ہندو عقیدت والے اس پل کو بڑے احترام سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں روایت ہے کہ اس ڈھانچہ کا رامائن میں بھی ذکر ہے وہ یہ پل ہے جسے بھگوان رام کی وانر سینا نے اس وقت کے انجینئر نل نیل کی رہنمائی میں لنکا پر چڑھائی کے لئے بنایا تھا۔ وشو ہندو پریشد کے سابق قومی صدر اشوک سنگھل نے کمیٹی کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا یہ ایک خیالی ہے۔ مختلف ملکوں کو قدیم وراثت جیسے چینی دیوار، اسٹیچو آف لیباریٹری،بکنگھم پلیس، آئیفل ٹاور، لندن برج وغیرہ بھی ہیں، پر ڈولپمنٹ کے نام پر ان قدیمی وراثتوں کو تو ضائع کرنے کی کبھی مانگ نہیں اٹھی؟ اگر قطب مینار کو بچانے کیلئے میٹرو ریل کے راستے میں تبدیلی کی جاسکتی ہے، تاج محل کی خوبصورتی بچانے کیلئے وہاں چل رہے کارخانوں کو بند کرایا جاسکتا ہے، میوزیموں میں رکھی گئی قدیمی نوادرات کی دیکھ بھال پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں تو اس قدیمی وراثت جو ہزاروں کروڑوں لوگوں کی عقیدت کا مرکز ہے، کو توڑنے کیلئے سرکار کروڑوں روپے کیوں خرچ کرنا چاہ رہی ہے۔ مرکزی حکومت اپنے اس فیل سے کسے فائدہ پہنچانا چاہ رہی ہے اور کیوں یہ بھی اپنے آپ میں سوال ہے۔ اس پروجیکٹ کے پیچھے ڈی ایم کے نیتاؤں کا دباؤ ہے۔ کروڑوں روپے کی آمدنی کا ذریعہ یہ اسے بنانا چاہتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں یوپی اے سرکار کروڑوں ہندوؤں کے جذبات کا احترام کرے گی اور رام سیتو کو قومی وراثت اعلان کرکے عدالت کو صاف طور پر بتا دے گی کہ رام سیتو پروجیکٹ منسوخ کیا جاتا ہے۔ ویسے بھی یہ شری رام کا بنایا سیتو ہے اتنی آسانی سے نہیں ٹوٹ سکتا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟