کانگریس اور راشٹریہ لوکدل اتحاد یوپی میں گل کھلا سکتا ہے



Published On 13th December 2011
انل نریندر
اترپردیش کے 2007 ء میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں اپنے دم خم پر لڑ کر اپنی اپنی سیاسی زمین کو کھسکا چکیں کانگریس اور راشٹریہ لوکدل آخر کار اس مرتبہ 2012ء میں یوپی اسمبلی چناؤ ایک ساتھ مل کر لڑیں گی۔راشٹریہ لوکدل کے پردھان اجیت سنگھ کی کانگریس صدر سونیا گاندھی سے ملاقات سے اب اس اتحاد کی تصدیق ہوگئی ہے۔ دونوں پارٹیوں میں اتحاد پرباقاعدہ مہر لگ گئی ہے۔ریاست میں اپنا مینڈیڈ واپس لانے کے لئے جٹی کانگریس مغربی اترپردیش کی جاٹ بیلٹ میں اجیت سنگھ کے ساتھ ملنے کے بعد انہیں مرکز میں وزیر بنانے کو بھی تیار ہوگئی ہے۔ ذرائع کے مطابق اتحاد میں آر ایل ڈی 48 سیٹوں پر چناؤ لڑ سکتی ہے۔ پہلے آر ایل ڈی 80 سیٹوں کی مانگ کررہی تھی۔ سمجھوتے کے مطابق پچھلے چناؤ میں جن سیٹوں پر جس پارٹی کے امیدوار جیتے تھے وہ سیٹ اس کے کوٹے میں ہی رہے گی۔ کانگریس، راشٹریہ لوکدل کے چناوی اتحاد ہونے سے مغربی اترپردیش کی سیاست کے تجزیئے بدلنا طے مانا جارہا ہے۔ سرکردہ لیڈروں کے ساتھ کانگریس جنرل سکریٹری راہل گاندھی کی موجودگی میں یہ خبر پارٹی ورکروں کے لئے ایک جوش بڑھانے والی تھی۔ اترپردیش کی سیاست میں یہ اتحاد نیا گل کھلا سکتا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے سرکردہ لیڈر رشید مسعود کا پالا بدل کر کانگریس کی طرف آنا اس اتحاد کو اور طاقت دے سکتا ہے۔ آر ایل ڈی کا دعوی ہے کہ پارٹی کااثر آگرہ، علی گڑھ، میرٹھ ، سہارنپور اور مراد آباد زون کی 136 سیٹوں پر ہے اس لئے یہ اتحاد آنے والے اسمبلی چناؤ میں کارگر ثابت ہوگا۔ آر ایل ڈی کے ترجمان نے تو کہا کہ کانگریس آر ایل ڈی اتحاد اترپردیش میں سرکار بنائے گا۔ مغربی اتر پردیش میں تو ترجمان کا کہنا ہے سپا بسپا دونوں صاف ہوجائیں گے۔ کہا جارہا ہے کہ جاٹ ووٹ جلدی سے کسی دوسری پارٹی کو منتقل نہیں ہوتا لیکن آر ایل ڈی کی حمایت سے کانگریس کو جاٹ بیلٹ میں کافی فائدہ ہوسکتا ہے۔مسلم ریزرویشن کے بعد اس میں اور اضافہ ہوگا مگر مسلم اور جاٹ دونوں ہی کانگریس کو ووٹ دے سکتے ہیں یا یوں کہئے کہ بسپا سپا کے خلاف ووٹ ڈال سکتے ہیں تو یقینی طور سے یہ کانگریس کو فائدہ پہنچائے گا۔ اترپردیش کی دو سمت والی سیاست کو کانگریس نے یہ اتحاد کرکے نیا موڑ دے دیا ہے۔ پچھلے لوک سبھا چناؤ میں وہ اس بالادستی کو پہلے ہی توڑ چکی ہے جس میں بسپا آدھی ہوگئی تھی اس لئے کانگریس کی نئی حکمت عملی کی بنیاد پر کمزور اب نہیں مانا جاسکتا ۔ ابھی مسلمانوں کو ریزرویشن کا معاملہ کانگریس کے پاس بچا ہے جو جلد سامنے آسکتا ہے۔
کانگریس کے قومی سکریٹری جنرل اور ایم پی راہل گاندھی نے سنیچر کو لکھنؤ میں کہا کہ پردیش کے ورکرکافی صلاحیت والے اور سرگرم ہیں۔ اگر 2012ء کے اسمبلی چناؤ میں پارٹی کو پورے دم خم سے وہ جٹ جائیں تو اترپردیش میں کانگریس کو سرکار بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پچھلے دو روزہ دورہ پر راجدھانی لکھنؤ پہنچنے پر راہل گاندھی نے پردیش دفتر میں اس کے عہدیداران ضلع و شہری پردھانوں کو خطاب کیا تھا اور کہا تھا کانگریس ورکروں میں پردیش میں کانگریس کی سرکار بنوانے کی بھرپور صلاحیت ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ورکر پورے تن من کیساتھ آنے والے چناؤ میں لگ جائیں۔انہوں نے کہا 1991ء سے 2009ء تک کانگریس نے اترپردیش میں پوری سنجیدگی سے چناؤ نہیں لڑا اس لئے تقریباً دو دہائیوں تک غیر کانگریسی حکومتیں اقتدار پر قابض رہیں۔ صحیح معنی میں ابھی کانگریس پارٹی 2012ء میں چناؤ لڑنے جارہی ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں اترپردیش کے اقتدار پر سپا، بسپا اور بھاجپا کی غیر کانگریسی حکومتیں اقتدار پر قابض رہیں۔ ان کے عہد میں اترپردیش بری طرح سے پچھڑ گیا۔ راہل نے کہا کہ غیر کانگریسی حکومتوں سے پردیش کی جنتا بری طرح سے عاجز آچکی ہے اور اب پردیش میں بدلاؤ کا ماحول بھی تیار ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کانگریس کی سرکار اقتدار میں آئے۔
Ajit Singh, Anil Narendra, Bahujan Samaj Party, Congress, Daily Pratap, RLD, Samajwadi Party, Uttar Pradesh, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟