کیا روس میں ہورہے مظاہروں کے پیچھے امریکی ہاتھ ہے؟



Published On 15th December 2011
انل نریندر
روس میں موجودہ وزیر اعظم ولادیمیر پوتن کے چھ سالہ عہد اور حال ہی میں ڈوما کے لئے ہوئے انتخابات میں ہوئی دھاندلیوں کو لیکر جنتا میں ناراضگی رکتی نہیں دکھائی پڑ رہی ہے اور اپوزیشن پارٹیوں نے ایتوار کو بھی احتجاجی ریلیاں نکالیں۔ غور طلب ہے کہ روس میں 4 دسمبر کو منعقد ہوئے ڈوما چناؤ میں کل ملاکر سات پارٹیوں نے حصہ لیا تھا۔ چناؤ نتائج کے اعلان ہونے کے بعد پوتن کی سربراہی والی یونائیٹڈ رشیا والی پارٹی کو سب سے زیادہ تقریباً50 فیصدی ووٹ اور ڈوما میں 238 سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ ان انتخابات میں روسی کمیونسٹ پارٹی 20 فیصدی ووٹ اور 92 سیٹوں کے ساتھ بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ روس کے صدر دمیتری میدوف نے حالیہ چناؤ میں ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی کے الزامات پر ہزاروں لوگوں کے مظاہرے کے بعد ایتوار کو معاملے کی جانچ کے احکامات دے دئے ہیں۔ میدوف نے فیس بک پر لکھا ہے''میں نہ تو ان ریلیوں میں لگائے جانے والے نعروں سے متفق ہوں اور نہ ہی بیانوں سے حالانکہ میں نے پولنگ مراکز پر چناوی قانون کی تعمیل سے متعلق سبھی اطلاعات کی جانچ کے احکامات دئے ہیں۔ غور طلب ہے کہ پچھلے ہفتے ہوئے پارلیمانی چناؤ میں وزیر اعظم پوتن کے حلاف 50 ہزار سے زیادہ شہری سڑکوں پر اتر آئے اور انہیں اقتدار سے ہٹانے اور منصفانہ چناؤ کرانے کی مانگ کررہے ہیں۔ اس پر میدوف نے لکھا ہے '' لوگوں کے پاس اپنے نظریات رکھنے کا پورا حق ہے جو انہوں نے کیا یہ اچھا ہے کہ سب قانون کے دائرے میں ہو''۔
سوال یہ ہے کہ کیا عوام کا غصہ جائز ہے اور واقعی چناؤ میں دھاندلی ہوئی ہے یا پھر کوئی سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت پوتن کے خلاف بنے ماحول کو ہوا دینے میں لگے ہیں۔ وزیر اعظم ولادیمیر پوتن نے ملک میں ہورہے وسیع مظاہروں کے لئے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کوذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پوتن نے الزام لگا یا کہ مغربی ممالک دیش میں چناؤ کو متاثر کرنے کیلئے کروڑوں ڈالر خرچ کررہے ہیں۔پوتن نے کہا یوروپی مبصرین آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کوآپریشن کی رپورٹ دیکھنے سے پہلے ہی ہلیری نے چناؤ کے منصفانہ ہونے پر سوالیہ نشان لگادئے ہیں۔ انہوں نے کہا امریکی وزیر خارجہ نے اپوزیشن ورکروں کے سر میں سر ملایا اور ان کی پیٹھ پر امریکی محکمہ خارجہ کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ کو روس کا نیوکلیائی طاقت ہوناپچ نہیں رہا ہے اس لئے وہ گھریلو سیاست میں مداخلت کررہے ہیں۔ انہوں نے خبردار بھرے لہجے میں کہا ''ہم اپنی گھریلو کارروائی کو متاثر کرنے نہیں دے سکتے اور اپنی سرداری کی حفاظت کے لئے پر عزم ہیں''۔ پوتن کے الزامات میں کتنا دم ہے یہ تو ہم نہیں جانتے لیکن ہاں امریکہ کا یہ اسٹائل رہا ہے گذشتہ مہینوں میں مشرقی وسطی میں ایسے مظاہرے ہی ہوئے تھے اور کہا یہ ہی جاتا ہے کہ امریکہ کا ان کے پیچھے ہاتھ ہے۔ اور حمایت دے رہا ہے امریکہ کا مقصد اور روس کا مقصد یکساں ہے۔ امریکی حکمرانی کی آزادانہ پالیسی پسند نہیں تھی۔ موجودہ عہد کا وہ تختہ پلٹنا چاہتے تھے۔روس بھی پوتن کے کچھ اشوز پر لئے گئے موقف سے امریکی محکمہ خارجہ خوش نہیں ہے۔ ویسے روس میں سرکار نواز ایک ویب سائٹ نے امریکی سرکار اور آزاد چناؤ مبصر ''گالوسے'' کے درمیان ای میل کے تبادلے کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ لاؤ نیوز کی ویب سائٹ پر گلوس کو ملنے والی امریکی مدد کا تبصرہ کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم پوتن نے جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ پر روس میں مخالف مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام کے بعد یہ انکشاف کیا ہے۔ ویب سائٹ نے لکھا ہے پہلے صرف یہ کہا جاتا تھا گلوس کو مدد ملتی ہے اور اب ہمارے پاس ثبوت ہیں۔ ادھر ایک ماہر سیاسیات میکسس گوناچاروف نے کہا کہ مائیکرو بلاننگ ویب سائٹ ٹیوٹر پر حملہ روسی انتظامیہ کی ملی بھگت سے ہوا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ سوویت روس کے ٹوٹنے کے بعد کمزور روس کو ایک متحدہ روس بنانے میں اہم کردار نبھانے والے پوتن کے خلاف لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں؟ سوویت روس کے زمانے میں جب ریڈیو یا ٹیلی ویژن اور مقامی لوک سنگیت کے علاوہ کچھ اور نہیں چلتا تھا تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا تھا کہ دیش میں کوئی سیاسی بحران آنے والا ہے۔ اس کا موازنہ آج کے اس حالات سے کیا جاسکتا ہے کہ اگر روس میں جب بھی کوئی انٹر نیٹ کھولتا تو ویب برائزر ڈینیل آف سروس بتلاتا ہے۔ یہاں کہا جاسکتا ہے کہ ایک بار پھر روس میں سیاسی بحران کے اشارے مل رہے ہیں۔ حالانکہ مظاہرین میں 100 سے زیادہ لوگ گرفتار کئے جاچکے ہیں۔ ماسکو سمیت دیش کے 50 شہروں میں وسیع مظاہرے پوتن اور میدوف کے لئے تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔ پچھلے12 برسوں میں روس میں جب بھی مظاہرے ہوئے ان میں لوگ شامل نہیں ہوا کرتے تھے۔ لوگ سیاست کو کم اہمیت دیا کرتے تھے۔ ان کا واحد مقصد اپنی زندگی میں پائیداری لانا ہوتا تھا۔روسی عوام سوویت روس کی تقسیم سے پہلے علاقے کو کنٹرول کرنے والی سرکار اور 90 کی دہائی میں کڑوی یادوں کو بھلا دینا چاہتی ہے لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ جب اس بار چناؤ ہوئے تو لوگوں کو لگا کہ حکمراں طبقہ ان کی حالت کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور چناؤ میں واقعی دھاندلی ہوئی ہے یا یہ امریکہ کا پوتن کے خلاف ہتھیار ہے کہنا مشکل ہے لیکن اتنا طے ہے کہ روس میں ایک بار پھر عدم استحکام کے دور کا آغاز ہوچکا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ولادیمیر پوتن اور میدوف اس کو کنٹرول میں لا سکیں گے۔
America, Anil Narendra, Daily Pratap, Russia, Valadimir Putin, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟