چرچ میں گھس کر پادری کا قتل وفائرنگ!

روس کے نارتھ کراکش میں واقع داغستان میں اتوار کو مسلح حملہ آوروں نے چرچ اور سنیگاگ یعنی (یہودیوں کی عبادت گاہ) کو نشانہ بنایا ۔اس حملے میں 15 پولیس جوانوں سمیت کئی لوگ مارے گئے ۔پولیس کی جوابی کاروائی میںچھ حملہ آور مارے گئے ۔مسلح لوگوںنے روس کے شمالی صوبہ میں واقع داغستان کے ڈربٹ اور مخام کالا میں اس وقت حملہ کیا جب لوگ ایک مذہبی تیوہار منا رہے تھے ۔حملہ آروں کی پہچان تونہیں ہو پائی لیکن اس علاقہ میں پہلے بھی حملے ہوتے رہے ہیں مرنے والوں میں پولیس ملازمین کے علاوہ گرجا گھر کے پادری اور سیکورٹی گارڈ وغیرہ شامل ہیں ۔داغستان حملے سے پہلے بھی خبروں میں چھایا رہ چکا ہے ۔پچھلے سال اکتوبر میںشہر کے ایئر پورٹ میں کچھ لوگ گھس گئے تھے تو اسرائیل راجدھانی تل ابیب سے آئے تھے ۔تل ابیب سے آئے لوگوں کی تلاش کررہے تھے یہ سبھی فلسطین حمایتی تھے جو یہودیوں مخالف نعرے لگا رہے تھے اس واردات کا ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں دیکھا گیا تھا کہ ویسے سینکڑوں لوگ ایئر پورٹ ٹرمنل پر یہودی مخالف نعرے بازی کر رہے تھے اور ہاتھوں میں فلسطینی جھنڈے لئے ہو ئے تھے اور اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے ۔روس کی تفتیشی کمیٹی نے اسے دہشت گردانہ حرکت کہا ہے ۔اس نے داغستان میں حملے کی جانچ شروع کر دی ہے ۔داغستان روس کی ایک بری مسلم آبادی والا صوبہ ہے جو چیچنیا کے پڑوس میں ہے ۔حملہ میں مرنے والے پادری کی پہچان فادر نیکولاج کی شکل میں ہوئی ہے ۔اس سے پہلے حکام نے بتایا تھا کہ حملہ آورون نے ان کا گلا کاٹا اس کے بعد چرچ کے باہر تعینات ایک سیکورٹی گارڈ کوبھی مار ڈالا ۔روسی یہودی کانگریس نے بتایا کہ ڈربٹ ماخم کالا میں ایک یہودی پر حملہ کیا گیا ۔اس کے چالیس منٹ پہلے پرارتھنا ہو چکی تھی اور وہاں کوئی موجود نہیں تھا حملہ آوروں نے سنیگاگ کی بلڈنگ کو بھی آگ لگا دی ۔اس دوران باہر کھڑے پولیس ملازم و سیکورٹی گارڈ حملے میں 4 مار ے گئے ۔روسی یہودی کانگریس نے کہا کہ متوفین اور زخمیوں کی صحیح تعداد کے بارے میں نہیں بتایا جاسکتا ۔جغرافیائی طور سے یہ علاقہ بہت خوبصورت نظر آتا ہے لیکن اندر سے اتنا ہی کمزور ہے ۔19 ویں صدی سے ہی داغستان نے اب تک مضبوطی نہیں دیکھی ہے ۔وہاں زار کی حکومت رہی پھر اسٹالن کا دور آیا اس صوبہ کے لوگوں نے ہمیشہ مشکلوں کا سامنا کیا ہے ۔اسلامی طاقتوں نے اس علاقہ میں اپنی موجودگی ہمیشہ درج کروائی ہے ۔سماج واد کے دور کے بعد اسلامی داغستان میں خوب پھیلا اور اس جگہ پر تقریباً 3 ہزار مسجدیں ،اسلامی ادارے اور اسکول ہیں ۔سال 2012 میں ایک سروے کے مطابق 83 فیصد لوگ اسلام کو ماننے والے ہیں ۔داغستان میں گزشتہ کچھ دہائیوں میں ایسا دیکھا گیا ہے جب اسلامی انتہا پسند تنظیم روسی سیکورٹی فورسز کیساتھ لڑتے رہے ہیں لیکن 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہوئی اسرائیل فلسطین جنگ کے بعد داغستان میں یہودیوں پر حملے تیز ہوئے ہیں یہاں کی اکثریتی آبادی سنی مسلمانوں کی ہے ۔داغستان مشہور اسلامی ہیرو امام شمیل کا وطن بھی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟