لٹتی رہی عورت کی عصمت ،لوگ تماشا ئی بنے رہے !

جس وقت راجدھانی دہلی یوم جمہوریہ کا جشن منا رہی تھی اسی دوران دن دہاڑے ایک عورت کی عزت تار تار ہو رہی تھی خاتون کو پہلے اغوا کیا گیا ،مار ا پیٹا گیا ،چہرے پر کالک پوتی گئی اور جوتوں کی مالا پہنا کر سڑک پر گھمایا گیا ۔اس عورت پر تب کیا گزری ہوگی اس اندازہ ہی لگایا جا سکتاہے۔ رونگٹے کھڑے کرنے والی اس واردات میں بہت سی خواتین نہ صر ف کھڑی تھیں بلکہ وہ اس نابالغ ملزموں کو اس عورت کے ساتھ بد فعلی کر نے کے لئے اکسا رہی تھی ۔تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ یہ سب لوگ دیکھتے ہوئے بھی تماشائی بنے رہے اور یہ عورت مدد کیلئے چلا تی رہی لیکن کوئی اس کی مدد کیلئے آگے نہ آیا ۔جو اطلاعات سامنے آئیں ہیں ان سے پتا چلتاہے کہ اس کے پڑوس میں رہنے والا ایک لڑکا اسے پسند کر تاتھا اس کے انکار کئے جانے کے بعد اس لڑکے نے پچھلے سال 12نومبر کو خودکشی کرلی تھی۔لڑکے کی موت کیلئے اس کے رشتہ دار اس لڑکی کو ذمہ دار بتا رہے تھے وہ کسی بھی طرح کا بدلا لینا چاہتے تھے ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ اگر اس لڑکے کی خودکشی میں کسی بھی شکل میں اس لڑکی کا کوئی رول نہیں تھا ۔اسکی جانچ اور سزا دینے کی ذمہ داری پولیس اور عدالت کی ہے ۔سڑک پر سیکڑو ںلوگوں نے گزرتے ہوئے دیکھا لیکن اسے بچانے میں کوئی بہادری نہ سمجھی کسی نے بھی اس گھنونی حرکت کی مخالفت نہیں کی اور نہ ہی بدمعاشوں کو روکا ۔ویسے تو عورتوں پر ظلم و ستم کے واقعات ہر گھنٹے انظام دیے جاتے ہیں کیا دہلی ،کیا الور اور کیا ہاتھرس ؟بات انصاف کی ہے ذاتی رنجش میں کوئی بھی خاندان اس قدر پاگل ہوجائے کہ اسے خو دکے عورت ہونے کی بھی عزت نہ ملے اس سے زیادہ گھناو¿نا اور کیا ہو سکتاہے؟حقیقت یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ مہینے سے لڑکی اور اس کے رشتہ داروں کو دبنگ خاندان کی طرف سے دھمکیا ں مل رہی تھیں جس کی شکایت پولیس سے بھی کی گئی تھی۔ وہ ملزم خاندان نہ صرف ناجائز شراب کا کاروباری بتایا جا رہا ہے بلکہ اس کے افراد کے خلاف پولیس میں پہلے سے ہی کئی مقدمہ درج ہیں اس کے باوجود ان کا بے خوف ہوکر اس واردات کو انجام دینا بتا تاہے کہ ان پر کوئی دباو¿ نہیں تھا ۔حالات یہ ہوگئے ہیں کہ متاثرہ کو اپنا گھر بدلنا پڑا مگر حملہ وروں اسے گھر سے اغوا کر لیا ۔ایسی زیادتی ،وحشی حرکت اور اوچھی حرکت کرنے والوں کو سخت سے سخت سزا ملے ۔یہی انصاف ہوگاجو سرکار ہر دن جنتاکو یہی یقین دلاتی رہتی ہے کہ وہ عورتوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ہر قدم اٹھائے گی ۔مجرمانہ واردات سے انہیںبچانے کیلئے دہلی بھر میں بھاری تعداد میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے گی یا بدمعاشوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے گی انہیں سماجی ترقی جیسے پروگرام پر شاید سوچنا بھی ضروری نہیں لگتا جبکہ عورتوںکے خلاف تمام اس طرح کے مر د ذہنیت کام کرتی ہے اور اس نظریہ سے باہر آنے کیلئے خاص پہل کرنے کی ضرورت ہے ۔ایسی ہر واردات راجدھانی میں ایک دہائی پہلے پیرامیڈیکل طالبہ نر بھیا کے ساتھ واقعہ پیش آیا تھا جس میں زیادتی ہوئی کہ زخموں کو ہرا کر دیتی ہے اور پتہ چلتاہے کہ نہ کوئی قانونی نظام بدلا اور نہ سماج بدلاہے۔اس وقت ملزمان کی گرفتاری کے ساتھ سب سے ضروری یہ بھی ہے کہ متاثرہ کو اچھا علاج کے ساتھ اس کے خاندان کو حفاظت مہیا کرائی جائے ۔قانون کا خوف بہتر اس وقت ہوتا ہے جب موالی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کام کرتے ہیں اس سے امتظامیہ کو نمٹنے کیلئے آزادی کے ساتھ کام کرنے کی چھوٹ ملے کہ ملزمان پر سخت شکنجا کسا جا سکے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟