پبلک چھٹی کااخلاقی حق نہیں ہے !

چھٹیوں کی سہولیت اس لئے رکھی گئی تھی کہ لوگ روز مر ہ کی بھاگ دوڑ سے چھٹکا را پاکر اپنے ڈھنگ سے زندگی گزار سکیں اور اپنے تیو ہاروں پر خوشی منا سکیں ۔ مگر دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمار ے دیش میں چھٹی کو بہت سے لوگوں نے اپنا قانونی حق مان لیا ہے ۔تو کئی لوگ اسے لیکر سیا سی روٹیا ں بھی سینکنے کی کوشش کرتے دیکھے جاتے ہیں ۔ کئی ریا ستوں میں بہت ساری چھٹیا ں اس لئے غیر ضروری طور سے فہر ست میں شامل ہوتی گئی ہیں جنہیں سیا سی پارٹیوں نے ہی مختلف طبقات کو اپنے حق میں کر نے کی غرض سے لاگو کرایا ۔ بمبے ہائی کورٹ نے کہا کہ سرکار ی چھٹی کا اخلا قی حق نہیں ہے ۔ ویسے بھی ہما رے دیش میں کافی عام چھٹیا ں ہیں ممکنہ طور پر ان چھٹیوں کی تعدا د بڑھا نے کے بجائے ان کو کم کر نے کا وقت آگیا ہے ۔ کسی دن کو پبلک چھٹی ڈکلیئر کرنا یا اسے آر ایچ بنا نا سرکا ر کی پالیسی کا معاملہ ہے ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کسی دن کو پبلک چھٹی کرنے سے کسی کے اخلاقی حق کی عدولی ہوتی ہے ۔ جسٹس گوتم پٹیل و جسٹس مادھو مجمدار کی ڈیویزن بنچ نے یہ بات لبا سہ کے باشندے کشن مائی پھٹیا کی طرف سے دائر عرضی کو خارج کرتے ہوئے جمعرات کو کہی عرضی میں مانگ کی گئی تھی کہ دو اگست کو پبلک چھٹی دی جانی چاہئے ۔کیوں کہ اسی دن 1954میں مر کزی حکمراں ریا ست دادر و نگر حویلی نے سابقہ انتظا میہ سے آزادی حاصل کی تھی ۔ اس سے پہلے 29جولائی 2021کو دو اگست کی پبلک چھٹی کو ختم کر دیا گیا تھا ۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ 15اگست کو دیش کا یوم آزادی ہونے کے ناطے پبلک چھٹی کی جا سکتی ہے تو دو اگست کو کیوں نہیں ہو سکتی ۔ بنچ نے اس دلیل کو نا منظور کر دیا اور کہا کہ پبلک چھٹی کا کوئی اخلا قی حق نہیں ہے ۔ بھار ت ایک ترقی پذیر دیش ہے جہاں پروڈکشن بڑھا نا انتہائی ضروری ہے ویسے بھی ہما رے پاس بہت چھٹیا ں ہوتی ہیں ۔ان میں کٹوتی ہونی چاہئے ۔چھٹیا ں بڑھا نے کا تو سوال ہی نہیں۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟