اتراکھنڈ میں سرکاریں ادلا بدلی کی تاریخ رہی ہے !

اتراکھنڈ میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے ۔اب تک صوبہ میں اقتدار باری باری بھاجپا اور کانگریس میں منتقل ہوتا رہا ہے ۔اب ایک بار پھر یہ دونوں پارٹیاں چناوی میدان میں آمنے سامنے ہیں ۔اتراکھنڈ کی چناوی تاریخ بتاتی ہے کہ ریاست کی جنتا اقتدار کی روٹی توے میں الٹتی پلٹتی رہی ہے کہ روٹی جل نہ جائے ۔صوبہ کی چناوی تاریخ بتاتی ہے کہ ریاست میں اقتدار مخالف لہر ہی سیاسی حریفوں کو اقتدار کے سیڑھی پر کھڑا کردیتی ہے اور اتار دیتی ہے ۔2002 سے پہلے اور 2017 اسمبلی چناو¿ کو چھوڑنے تو بھاجپا اور کانگریس کو کبھی مکمل اکثریت نہیں ملی دونوں پارٹیوں نے جوڑ توڑ سے ہی سرکاریں بنائیں ۔2007 میں بھاجپا نے آزاد ممبران اور کچھ علاقائی ممبروں سے مل کر 2012 میں کانگریس نے وسپا اور آزاد کی مدد سے سرکار بنائی ۔اور 2022 میں ابھی صوبہ میں زبردست اکثریت کی بھاجپا سرکار قائم ہے ۔اور وہ اتراکھنڈ میں ہر پانچ سال میں تبدیل اقتدار میں لگی رہی ۔اور اس مرتبہ بھی وہ ساٹھ کے پار کا نعرہ دے رہی ہے تو ہیں کانگریس اقتدار مخالف لہر کے گھوڑے پر سوار ہو کر اقتدار میں واپسی کی امید لگائے ہوئے ہے ۔صوبہ میں ارکندر و بسپا نے بھی اقتدار میں ساجھیداری کی ہے لیکن اس مرتبہ عام آدمی پارٹی بھی پورے دم خم سے چناوی میدان میں ہے ۔یہ بات اور ہے کہ وہ لوک سبھا چناو¿ میں وہ کچھ خاص نہیں کرپائی تھی ۔وہیں بسپا سپا یو کے ڈی و لیفٹ پارٹیوں کا مینڈیٹ مسلسل کھسکتا رہا ہے ۔دیکھنا یہ ہے اب باری کس کی ہے ۔کیا ہرپانچ سال میں تبدلی کا جو دور بھاجپانے توڑا تھا وہ پھر سے دہرا سکتی ہے ۔کانگریس کو بھی بامید ہے کہ وہ اس بار بازی مار لے گی ۔وہیںعام آدمی پارٹی بھی چھاتی ٹھوک کر دعویٰ کررہی ہے اب کی بار ہم سرکار بنائیںگے دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟