مجبوری میں بھیک مانگتے ہیں، سماجی و اقتصادی اشو!

سپریم کورٹ نے سڑکوں پر بھیک مانگنے پر روک لگانے کی مانگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کوئی رائے قائم کرکے وہ بھیکاریوں اور بے گھروں کو ہٹانے کا حکم نہیں دیں گے بڑی عدالت نے کہا کہ یہ تعلیم و روزگار کے مواقعوں کی کمی سے پیدا سماجی اقتصادی مسئلہ ہے لوگ بھیک اس لئے مانگتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے عدالتوں نے کورونا سے پیدا حالات کو دیکھتے ہوئے مرکز و دہلی سرکار کو بھیکاریوں کو بسانے اور ویکسی نیشن کے اقدامات پر تجاویز دینے کا کہا ہے جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ کے سامنے وکیل کش کالرا نے ایک مفاد عامہ کی عرضی میں کوویڈ انفیکشن وائرس روکنے کے لئے بھیکاریوں کا ویکسی نیشن یقینی کرنے کو کہا عرضی کے پہلے حصے میں مانگ کی گئی تھی کی کورونا سے بچانے کے لئے سبھی ریاستوں میں بھیکاریوں -بے گھروں کو ٹریفک جنکشنوں ، بازاروں میں بھیک مانگنے سے روکا جائے اس پر بنچ نے کہا کہ ہم ایسا حکم نہیں دے سکتے بھیک مانگنا غریبی کا نتیجہ ہے ایسا رخ اپنا نہیں سکتے ہم بھیکاریوں کو نہیں دیکھنا چاہتے کوئی بھی شخص بھیک نہیں مانگنا چاہتا از خود حالانکہ بنچ نے ان کی بعض آبادکاری سے وابستہ دوسرے حصے پر سماعت کے لئے ہامی بھر دی ہے عدالت کا کہنا تھا کہ سماجی اقتصادی مسئلے پر مرکز و ریاستوں کو غور کرنا ہوگا ۔ ان بچوں کو تعلیم دینی چاہئے جنہیں سڑک پر بھیک مانگتے دیکھتے ہیں عدالت نے سرکاری وکیل تشار مہتا سے اگلی سماعت کے دن اس پر مدد دینے کی درخواست کی ہے بھیک مانگنے والوں کے تئیں جس ہمدردانہ نظریہ کا مظاہرہ سپریم کورٹ نے کیا ہے وہ نہ صرف قابل خیر مقدم ہے بلکہ وہ ایک راہ عمل بھی ہے عدالت کا اشارہ صاف تھا کہ بھیک مانگنے پر پابندی لگانا ٹھیک نہیں ہوگااس سے بھیک مانگنے کا مسئلہ ہل نہیں ہوپائے گا عدالت نے مسئلے کی تشریح جس سنجیدگی کے ساتھ کی ہے وہ غریبی ہٹانے کی سمت میں آگے کے فیصلوں کے لئے بہت نظیر ہوگی عدالت نے پوچا آخر لوگ بھیک کیوں مانگتے ہیں ؟غریبی کے سبب یہ حالت بنی ہے سب سے بڑا مسئلہ دال روٹی کا ہے روزگار کے مواقع ختم ہوگئے ہیں ایسے میں اپنے پریواروں کا پیٹ بھرنے کے لئے مجبوری میں بھیک مانگنا ہی وہ آخری متبادل کے طور پر اس پیشہ کے اپناتے ہیں سڑکوں پر درجنوں چھوٹے چھوٹے بچے ریڈ لائٹوں پر گھومتے ملتے ہیں جو ہاتھ پھیلائے ہوتے ہیں بہت سے معزور بھی ملتے ہیں یہ ایک سماجی غریبی کا مسئلہ ہے اس پر سنجیدگی سے ہی فیصلہ ہو سکتا ہے ڈنڈے سے نہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟